دل میں کونین کے ہے تری آرزو
دل میں کونین کے ہے تری آرزو
چشم عالم کو ہے تری ہی جستجو
سر جھکے جس طرف توہی ہے روبرو
تیرے جلوؤں کی ہے روشنی چار سو
شان وحدت کے پردہ میں پنہاں ہے تو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
حسن یوسف کا بے شبہ ایسا ہی تھا
اک نظر میں زلیخا کا ہوش اڑگیا
لیکن ایسے حسیں تھے حبیبِ خدا
جس نے دیکھا انہیں، کلمہ پڑھنے لگا
بول اٹھا تم سا دیکھا نہیں ماہ رو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
فرش احمد پہ سوتے ہیں شیرِ خدا
بیچ دی جان اب ان کو پردا ہی کیا
وہ حفاظت کرے جس نے سودا کیا
سانس لینے میں آتی ہے پیہم صدا
تیرا بندہ ہوں میں میرا مالک ہے تو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ذرہ ذرہ سے حکمت تری جلوہ گر
قطرہ قطرہ کی صنعت سے حیراں نظر
تری قدرت کے ہیں آئینے بحروبر
تری روشن نشانی ہیں شمس وقمر
جس طرف دیکھتا ہوں ادھر توہی تو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
زندگانی جب آنکھیں پھرانے لگی
موت عبرت کا منظر دکھانے لگی
چشم مایوس آنسو بہانے لگی
تیری آواز اس وقت آنے لگی
میں تو موجود ہوں کیوں حراساں ہے تو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
قیسؔ بلبل کا دل جب جلانے لگا
یعنی وحت کا نغمہ سنانے لگا
ڈالیاں جھوم اٹھیں حال آنے لگا
غنچہ تالی چٹک کر بجانے لگا
ناز سے نکلی کہتی ہوئی گل کی بو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد گیارہویں (Pg. 225)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.