وجودِ پاک ختم المرسلیں دریا ہے رحمت کا
وجودِ پاک ختم المرسلیں دریا ہے رحمت کا
نہیں اہلِ محبت کو خطر عصیان و زحمت کا
خدا نے رحمت اللعالمیں جب شہ کو فرمایا
ہوا دونوں جہاں میں فخر اس مرحوم امت کا
شفاعت جب تماشا گاہ محشر میں عیاں ہو گی
پڑے گا تب گلے میں منکروں کے طوق لعنت کا
نہیں اعمال مرے اس قدر جو رستگاری ہو
ولیکن ہے بھروسا اے نبی تری شفاعت کا
ہوئی توبہ قبول ان کی ترے کلمے کی برکت سے
مٹایا حرفِ حق نے آدم و حوا کی ذلت کا
اگر ہوتا مہ کنعاں زمانے میں ترے شاہا
زلیخا وار پھرتا دیکھ کر عالم ملاحت کا
کلیم اللہ جل کر خاک ہوتے طور سینا پر
نہ ہوتا گر، وہاں سایہ ترے دستِ حمایت کا
مسیح اللہ چوتھے آسماں پر ذکر کرتے ہیں
صف کر و بیاں میں بیٹھ کر کلمۂ شہادت کا
خضر مصروف ہے تا حشر کار آب داری میں
بنا فردوس میں ادریس درزی تری امت کا
لوائے حمد کے سایے میں اکثر انبیا ہوں گے
بڑھے گا حشر میں رتبہ یہاں تک تری امت کا
تزلزل پڑ گیا یک مرتبہ کسریٰ کے محلوں میں
ہوا مشہور جس دم دبدبہ شانِ نبوت کا
مطالب سب میرے دل کے بر آویں یا نبی اللہ
مری جانب پھرے گوشہ اگر عین عنایت کا
کبوتر کی طرح لوٹے ہے دل شام و سحر مرا
بہت ہے شوق دل میں تیرے روضہ کی زیارت کا
شہا محروم ہوں میں جب تلک اس آستانے سے
نظر آیا کرے ہر دم مجھے جلوہ عمارت کا
لکھایا جس بشر نے داغ دل پر تری الفت کا
رہے گا حشر تک سینہ میں اس کے داغِ حسرت کا
نئے انداز اور نوعِ دگر سے سر اٹھاتے ہیں
لکھے کیا حال سیدؔ نفس اور شیطاں کی شامت کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.