میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی
دلچسپ معلومات
حالات در بیان غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی (اجمیر-راجستھان)
درِ خواجہ سے کہوں کیا کیا مجھے کیاکیا نہ ملا
دین و ایماں ملا اور ملے محبوبِ خدا
دیکھا گنبد کے تلے ایک ہے مجمع سا لگا
ایک جوگن ہے کھلے بال ہیں کرتا ہے پھٹا
میں نے پوچھا کہ یہاں ماجرا کیا ہے یہ بتا
چیخ کر رونے لگی اس نے زباں سے یہ کہا
میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی
خواجہ کا یوں تو لٹتا ہے لنگر تمام سال
عرسوں میں دیگ لٹنے کا منظر ہے بے مثال
ہے سچا واقعہ کو طوائف نے ایک بار
خواجہ کی عظمتوں پہ کیا اپنا دل نثار
من پانچ سو کی دیگ ہے مشہور جس کا نام
دولت سے اپنی کرکے کھانے کا انتظام
منگوائیں دیگ کے لئے صندل کی لکڑیاں
ان لکڑیوں میں آگ لگا ڈالی بے گماں
خواجہ معین الدین کا ایسا کرم ہوا
نہ جلی وہ لکڑی نہ پائی گرم ہوا
اس واقعہ کی پھیلی ہے جب لوگوں میں خبر
درگاہ میں پہنچے چھوٹے بڑے سبھی دوڑ کر
سر شرم اور حیا سے طوائف کا جھک گیا
یعنی پیشے کا جب خیال ہوا دل لرز گیا
کرکے توبہ وہ خواجہ کی جوگن بنی
ڈال کر کفنی گلے میں سہاگن بنی
سر پہ اوڑھے دوپٹہ جو تھا قیمتی
آگ میں پھینکا اور دیگ تیار ہوئی
اس کرامت پہ قربان طوائف ہوئی
دیگ لٹتی رہی اور وہ کہتی رہی
میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی
میراؔ بائی جو تھی میرتا روڈ کی
رانا سانگا سے جب اس کی شادی ہوئی
ظاہرا میراؔ بائی مہارانی تھی
پردے پردے میں خواجہ کی دیوانی بھی
تین سو میل طے کرکے جاتی تھی وہ
خواجہ درشن کو ہر سال آتی تھی وہ
اس کو آتے ہوئے بیس سال ہوگئے
پاس روضے کے پہنچی نہ اس خوف سے
ہوں لباس مہارانی پہنے ہوئے
پاؤں میں سچے موتی کی پائل بھی ہے
سن کے پائل کی جھنکار وہ بہ غضب
خواجہ کہہ دیں گے میراؔ تو ہے بے ادب
میراؔ بائی کے دل سے جو نکلی صدا
راہبر بن کے خواجہ کو آنا پڑا
ہاتھ تھامے ہوئے غیب سے لے چلا
لا کے روضے کے اندر کھڑا کردیا
ظاہرا ہوش میراؔ کے قائم رہے
اتنی طاقت کہاں منہ سے کچھ بھی کہے
رہ گئی وہ کھڑی کی کھڑی
اور زباں سے وہ یہ کہتی رہی
میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی
سیٹھ ایک مارواڑی کا ہے واقعہ
کی کئی شادیاں پر نہ لڑکا ہوا
اس نے منت یہ مانی جو لڑکا دیا
تیرے نام اس کو کردوں گا خواجہ پیا
الغرض اس کو لڑکا ہوا اگلے سال
حسبِ وعدہ رکھا نام اجمیری لال
بعدِ شادی سلامی کا دھیان آگیا
راستے میں انہیں چند ڈاکو ملے
مارا دولہا دلہن چھین کر لے گئے
پیچھے مڑ کے جو دلہن نے دیکھا ذرا
ڈاکوؤں نے کہا دیکھتی ہے تو کیا
اب نہ تیری مدد کو کوئی آئے گا
کون ہے جو تجھے یہاں سے لے جائے گا
اتنا سنتے ہی لڑکی کو جوش آگیا
کانپی غصہ سے اور سرخ چہرہ ہوا
بولی کہ خواجہ بھی کیا میرا داتا نہیں
جس کے گھر جا رہی ہوں وہ آتا نہیں
اتنا کہنا تھا بارہ سوار آگئے
ڈاکوؤں کو فنا کرکے رخصت ہوگئے
ایک درویش کی لڑکی کو لائے وہاں
لاش دولہا کی بے سر پڑی تھی جہاں
دوڑ دلہن نے سر گود میں لے لیا
سر کو دھڑ سے ملایا تو وہ جی اٹھا
جوڑ میں حصہ چوٹی کا کچھ رہ گیا
بال پیوست گردان میں چوٹی کے تھے
جو ثبوتِ کرامت ہمیشہ رہے
ہندو لڑکی پکاری کہ خواجہ کی ہے
میرا خواجہ غریبوں کا داتا بھی ہے
میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی
- کتاب : Pakistani Qawwalian (Pg. 13)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.