Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آہ پھر تھمتا نہیں درد جگر کیا کیجیے

زور بدایونی

آہ پھر تھمتا نہیں درد جگر کیا کیجیے

زور بدایونی

MORE BYزور بدایونی

    دلچسپ معلومات

    منقبت در شان غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی (اجمیر-راجستھان)

    آہ پھر تھمتا نہیں درد جگر کیا کیجیے

    آہ خون رونے لگی پھر چشم تر کیا کیجیے

    آہ پھر چھریاں کلیجہ پر چلیں گی ہجر کی

    آہ پھر غم نے کیا ہے نوحہ گر کیا کیجیے

    آہ پھر درد و الم کا سامنا ہے ہجر میں

    آہ پھر ہے رنج و غم پیش نظر کیا کیجیے

    آہ پھر اک شب ہجراں بلائے جان ہوئی

    آہ پھر آئی قیامت کی سحر کیا کیجیے

    آہ اب آنسو بہانا پھر پڑیں گے ہجر میں

    آہ کیوں کر عیش سے ہوگی بسر کیا کیجیے

    آہ پھر درد دل بیتاب نے بیدم کیا

    آہ پھر آلا ہوا زخم جگر کیا کیجیے

    آہ پھر سوز دروں سے جلتے ہیں قلب و جگر

    آہ پھر آہوں سے اٹھتی ہیں شرر کیا کیجیے

    آہ پھر رنج و الم سے جلتے ہیں قلب و جگر

    آہ پھر آئیں بلائیں جان پر کیا کیجیے

    آہ پھر رنج و الم نے آ کے مسکن کر لیا

    آہ پھر دل بن گیا آفت کا گھر کیا کیجیے

    آہ پھر تیغ الم نے دل کو زخمی کر دیا

    آہ پھر دل پر چلا غم کا تیر کیا کیجیے

    آہ پھر آہیں کریں گے ہجر میں دل تھام کر

    آہ پھر انسو بہیں گے سال بھر کیا کیجیے

    آہ پھر پینا پڑے گا شربت رنج و الم

    آہ پھر غم کھائیں گے شام و سحر کیا کیجیے

    آہ پھر رنج و الم ہمدرد ہوں گی روز و شب

    آہ پھر ہوگی مصیبت سے بسر کیا کیجیے

    الفراق اے درگہ شاہنشہ کن و مکاں

    المدد ہونے لگا درد جگر کیا کیجیے

    الفراق اے کوچہ اجمیر جنیا شاق ہے

    آہ و زاری پھر کریں گے سال بھر کیا کیجیے

    الفراق اے گلشن اجمیر دل بیتاب ہے

    پھر بہیں گے آنکھ سے لخت جگر کیا کیجیے

    الفراق اے راحت دل بارگاہ ذی حشم

    آہ ہو چین سے کیوں کر بسر کیا کیجیے

    الفراق اے خانہ حضرت ہوئے تجھ سے جدا

    ٹھوکریں کھاتے پھریں گے دربدر کیا کیجیے

    الفراق اے کشور محبوب دل پر درد ہے

    جا رہے ہیں آہ تجھ کو چھوڑ کر کیا کیجیے

    الفراق اے جھالرا تیری جدائی شاق ہے

    زور کچھ چلتا نہیں تقدیر پر کیا کیجیے

    الفراق اے انا ساگر ہجر غم کا جوش ہے

    اب اٹھے گا ہجر میں درد جگر کیا کیجیے

    الفراق اے خانقاہ پاک کیوں کر چین ہو

    چین کا سامان نہیں آتا نظر کیا کیجیے

    الفراق اے روضۂ انور بہت مجبور ہوں

    آہ چھٹتا ہے در عالی گہر کیا کیجیے

    الفراق اے خواجہ ہندالولی بیتاب ہوں

    پھر مٹے فرقت کرے گی بے خبر کیا کیجیے

    الفراق اے آفتاب آسمان معرفت

    تیری فرقت میں تڑپتا ہے جگر کیا کیجیے

    الفراق اے مصطفیٰ کے لال جان مرتضی

    آپ تک جاتی نہیں میری خبر کیا کیجیے

    الفراق اے یادگار بو تراب ذی حشم

    آہ میں اپنی نہیں ہوتا اثر کیا کیجیے

    الفراق اے دلربا حسنین کے لینا خبر

    آہ ہو کیوں کر شب فرقت بسر کیا کیجیے

    الفراق اے فاطمہ کے لاڈلے جان حسن

    آج ہے اجمیر سے اپنا سفر کیا کیجیے

    الفراق اے راحت جان شہید کربلا

    پھر ہوا رنج و الم سے نوحہ گر کیا کیجیے

    الفراق اے سید ذی جاہ عالی مرتبت

    جاتا ہوں اب استانہ چھوڑ کر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ روضۂ انور ترا چھٹتا ہے آج

    ہائے خواجہ کچھ نہیں آتا نظر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ پھر کروں گا ہجر میں آہ و فغاں

    ہائے خواجہ پھر رہوں گا نوحہ گر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ کون پوچھے گا مریض ہجر کو

    ہائے خواجہ کون لے گا اب خبر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ اب جگر زخمی مرا ہو جائے گا

    ہائے خواجہ کون ہوگا چارہ گر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ اب اثر لاؤں کہاں سے آہ میں

    ہائے خواجہ ہر دعا ہے بے اثر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ درد فرقت سے جلے گا پھر یہ دل

    ہائے خواجہ داغ کھائے گا جگر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ اب بچھڑ کر آپ سے مر جاؤں گا

    ہائے خواجہ جان کرتی ہے سفر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ پھوٹتا ہے آپ کا دولت سرا

    ہائے خواجہ دشت اب ہوتا ہے گھر کیا کیجیے

    ہائے خواجہ ہجر کے رنج و الم سے تنگ ہوں

    ہائے خواجہ ہے مصیبت جان پر کیا کیجیے

    آتش فرقت بھڑک اٹھی جگر جلنے لگا

    داغ دل سے پھر ہوئے پیدا شرر کیا کیجیے

    حیف جاتے ہیں تری درگاہ سے عاشق ترے

    روز ہے ہیں بخت کو دل تھا کر کیا کیجیے

    ہجر کی راتیں کٹے گی آج سے فریاد میں

    جز فغاں اے بادشاہ بحر و بر کیا کیجیے

    ہجر میں کچھ جان کا کھونا مجھے مشکل نہیں

    یہ بھی تو بس میں نہیں اے چارہ گر کیا کیجیے

    وقت رخصت ہوگیا تاریک آنکھوں میں جہاں

    مثل ماہی دل تڑپتا ہے مگر کیا کیجیے

    زلف کی صورت پریشانی ہوئی ہے زلف میں

    جوش سودے کا عیاں ہے سر بسر کیا کیجیے

    لے خبر میری خدا کے واسطے شاہ جہاں

    رنج و غم نے کر دیا ہے نوحہ گر کیا کیجیے

    فی امان اللہ کہہ دے اے معین بیکساں

    اب تن تنہا چلا میں اپنی گھر کیا کیجیے

    آپ پر روشن ہے سارا حال اس کی شرح کیا

    غم ہزاروں ہیں دل بیتاب پر کیا کیجیے

    خواجہ عثمان کے پیاری تو مدد کر میری اب

    بن نہیں آتی مجھے کچھ سر بسر کیا کیجیے

    المدد یا فرد عالم مصیبت دور ہو

    مجھے ہے جور فلک آٹھوں پہر کیا کیجیے

    المدد مولا عنایت ہو مجھے عیش و خوشی

    نوحہ گر رہتا ہوں میں شام و سحر کیا کیجیے

    بخشوا لینا قیامت میں شہنشاہ زمن

    تم مدد پر ہو تو پھر خوف و خطر کیا کیجیے

    خاتمہ بالخیر ہو اندر وہی رات دن

    بابو عصیاں ہی مری بالاے سر کیا کیجیے

    ہے یقین نار جہنم سے بچائیں گے ہمیں

    ہیں غلام شاہ پھر خوف و خطر کیا کیجیے

    وقت رحلت چاند سی صورت دکھا دنیا شہا

    موت کا ہے خوف طاری قلب پر کیا کیجیے

    پنجتن کا واسطہ حاجت مری بر لائے

    چین آتا ہی نہیں آٹھوں پہر کیا کیجیے

    جستجو جس کی مجھے ہے وہ ملی مجھ کو شہا

    صدمہ فرقت بہت ہی جاں پر کیا کیجیے

    زندگی دشوار ہے آقا جدائی شاق ہے

    ہجر کے غم نے کیا ہے نوحہ گر کیا کیجیے

    جس قدر حضار ہیں سب کی برآئے آرزو

    پر الم ہیں آہ یہ خسہ جگر کیا کیجیے

    خواہش زر میں در دولت پہ آیا ہے کوئی

    ہے کوئی رنج و الم سے نوحہ گر کیا کیجیے

    خواہش اولاد میں کوئی گریبان چاک ہے

    داغ رکھتا ہے کوئی مثل قمر کیا کیجیے

    خواہش اولاد میں کوئی گریباں چاک ہے

    داغ رکھتا ہے کوئی مثل قمر کیا کیجیے

    خواہش دیدار لائی ہے مجھے اجمیر تک

    آپ کی صورت نہیں آتی نظر کیا کیجیے

    کوئی کہتا ہے خدا کے واسطے صورت دکھا

    لے رہا ہے چٹکیاں درد جگر کیا کیجیے

    کوئی کہتا ہے ملو خواجہ لبوں پر جان ہے

    ہجر کی تصویر ہے پیش نظر کیا کیجیے

    وصل کی صورت نہیں آتی نہیں آتی نظر

    صدمہ و اندوہ ہیں آٹھوں پہر کیا کیجیے

    آرزو سب کی بر آئے کبریا کے واسطے

    رنج سے ہر شخص ہے خستہ جگر کیا کیجیے

    جب معین الدین سا عالی ہے اپنا دہر میں

    گر دش افلاک کا خوف و خطر کیا کیجیے

    در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھروں ہوں ہجر میں

    بار غم سے دوش پر ہے بارسر کیا کیجیے

    دور گردوں ہوگیا گویا امرا دوران سر

    آپ لیتے ہی نہیں میری خبر کیا کیجیے

    اے طبیب بیکساں ہر وقت بڑھتا ہے مرض

    صورت صحت نہیں آتی نظر کیا کیجیے

    ذکر الاللہ ہیں سالک کہیں مشغول ہیں

    مست و بیخود ہو گیے ہیں با خبر کیا کیجیے

    جو جو آئی ہیں تری درگاہ میں پائیں مراد

    اب دعا اس کے سوا آٹھوں پہر کیا کیجیے

    سال آئندہ کو سب پھر آئیں یہاں اجمیر میں

    ہوگیا قل جاتے ہیں جاتے ہیں سب اپنے گھر کیا کیجیے

    الوداع یہ ہر در دولت پہ ہو جائے رقم

    دیکھ کر اس کو کہے یہ ہر بشر کیا کیجیے

    کاش اتنا آپ کہہ دیں سن کے میرا حال زار

    زور اپنا ہے اسے اب نوحہ گر کیا کیجیے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے