اے کہ مثل گل ز گل بالیدہ ئی
تو ہم از بطن خودی زائیدہ ئی
اے کہ تو مٹی سے پھول کی طرح بڑھا ہے، تو خودی کے بطن سے پیدا ہوا۔
از خودی مگذر بقا انجام باش
قطرہ ای می باش و بحر آشام باش
خودی کو نہ چھوڑ جس کا انجام بقا ہو وہ زندگی بسر کر، قطرے کی طرح رہ لیکن سمندر پی جانے والا بن۔
تو کہ از نور خودی تابندہ ئی
گر خودی محکم کنی پایندہ ئی
تو کہ خودی کے نور سے جگمگا رہا ہے، اگر خودی کو پختہ کرے تو دوام حاصل کرلے۔
سود در جیب ہمیں سوداستے
خواجگی از حفظ ایں کالاستے
اسی شوق و جنوں کے دامن میں نفع ہے، اسی سامان کی حفاظت میں آقائی ہے۔
ہستی و از نیستی ترسیدہ ئی
اے سرت گردم غلط فہمیدہ ئی
تو ہستی کا ملاک ہے اور عدم سے خوفزدہ ہے، میں تجھ پر قربان تو نے غلط سمجھا۔
چوں خبر دارم ز ساز زندگی
با تو گویم چیست راز زندگی
کیونکہ میں زندگی کے ساز و سامان سے واقف ہوں، میں تجھے بتاتا ہوں کہ زندگی کا راز کیا ہے۔
غوطہ در خود صورت گوہر زدن
پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن
موتی کی طرح اپنے میں غوطہ لگانا پھر اپنی خلوت گاہ سے سر باہر نکالنا۔
زیر خاکستر شرار اندوختن
شعلہ گر دیدن نظرہا سوختن
راکھ کے نیچے چنگاریاں سمیٹنا، شعلہ بن کر بھڑکنا اور نظروں کو جلا دینا۔
خانہ سوز محنت چل سالہ شو
طوف خود کن شعلہ جوالہ شو
چالیس سالہ محنت کا قسہ تمام کر، اپنا طواف خود کر اور چکر کھانے والا شعلہ بن۔
زندگی از طوف دیگر رستنست
خویش را بیت الحرام دانستنست
کسی دوسرے کے طواف سے آزاد ہونا اور خود کو کعبہ سمجھنا زندگی ہے۔
پر زن و از جذب خاک آزاد باش
ہم چو طائر ایمن از دل باش
اپنے پر کھول اور خاکی کشش سے آزاد ہو، پرندے کی طرح گرنے سے بے خوف ہوجا۔
تو گیا طائر نۂ اے ہوش مند
بر سر غار آشیان خود مبند
اے صاحب عقل و ہوش، اگر تو اڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو غار کے منہ پر اپنا آشیاں نہ بنا۔
اے کہ باشی بے پئے کسب علوم
با تو می گویم پیام پیر روم
اگر تو علوم حاصل کرنے کے در پے ہے تو میں تجھے رومی کا پیغام پہنچاتا ہوں۔
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
اگر علم کو تو جسم پر ڈالے گا تو وہ سانپ بن جائے اور اگر اسے دل پر ڈالے گا تو وہ دوست بن جائے گا۔
آگہی از قصۂ آخوند روم
آں کہ داد اندر حلب درس علوم
کیا تو روم کے اس استاد کے قصے سے واقف ہے جو طلب میں علوم کا درس دیتے تھے۔
پائے در زنجیر توجیہات عقل
کشتیش طوفانے ظلمات عقل
ان کے پیر عقلی دلائل کی زنجیر میں تھے اور ان کی کشتی عقل کے اندھیرے سمندر میں طوفان سے دو چار تھی۔
موسیٰ بیگانہ سینائے عشق
بے خبر از عشق و از سودائے عشق
وہ ایسے موسیٰ تھے جو عشق کے کوہ سینا سے محروم تھے اور عشق اور عشق کے جنوں سے ناواقف تھے۔
از تشکک گفت و از اشراق گفت
وز حکم صد گوہر تابندہ سفت
کبھی وہ مشک فلسفیوں کا ذکر کرتے اور کبھی اشراقیوں کے بارے میں بتاتے اور اپنی حکمت سے سیکڑوں چمکدار موتی پروتے۔
عقدہ ہائے قول مشائیں گشود
نور فکرش ہر خفی را وا نمود
(ارسطو کے پیرو) مشائی مفکرین کے اقوال کے گتھیاں سلجھاتے اور ان کی فکر کی روشنی ہر راز کو ظاہر کرتی۔
گرد و پیشش بود انبار کتب
بر لب او شرح اسرار کتب
ان کے آس پاس کتابوں کے انبار رہتے اور ان کے ہونٹوں پر کتابوں کے رموز کی تشریحات رہتیں۔
پیر تبریزی ز ارشاد کمال
جست راہ مکتب ملا جلال
شیخ کمال الدین جنیدی کے ارشاد سے شمس تبریزی نے ملا جلال الدین رومی کے مکتب کی راہ ڈھونڈھی۔
گفت ایں غوغا و قیل و قال چیست
ایں قیاس و وہم استدلال چیست
پوچھا یہ شور اور بحث و مباحثہ کیا ہے، یہ قیاس، وہم اور استدلال کیا چیز ہے۔
مولوی فرمود ناداں لیب بہ بند
بر مقالات خردمندان مخند
مولانا نے فرمایا کہ اے نادان خاموش رہ اور دانشمندوں کی گفتگو پر نہ ہنس۔
پائے خویش از مکتبم بیرون گداز
قیل و قال است ایں ترا با وے چے کار
میرے مکب سے تو باہر چلا جا، یہ قیل و قال ہے، میرا اس سے کیا کام۔
سوز شمس از گفتہ ملا فزود
آتشے از جان تبریزی گشود
میری بات تری سمجھ سے بالا تر ہے، اس سے عقل کا آئینہ روشن ہوتا ہے۔
بر زمین برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد
مولانا کی گفتگو سے شمس تبریزی کے سوزِ دل میں اضافہ ہوا اور ان کے دل سے ایک آگ بلند ہوئی۔
آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آں فلسفی را پاک سوخت
زمین پر ان کی نگاہ کی بجلی گری اور ان کی سانس کے سز سے مٹی سے شعلے اٹھنے لگے۔
مولوی بے گانہ پری اعجاز عشق
ناشناس نغمہائے ساز عشق
آتش دل نے عقل کے خرمن کو جلا دیا اور اس فلسفی کے دفتر کو جلا کر پاک کر دیا۔
گفت ایں آتش چساں افروختی
دفتر ارباب حکمت سوختی
مولانا روم عشق کے کرشمے سے ناواقف اور عشق کے نغموں سے بے خبر تھے۔
گفت شیخ اے مسلم زنار دار
ذوق و حالست ایں ترا با وے چے کار
پوچھا تو نے یہ آگ کیونکر بھڑکائی اور حکمت والوں کے دفتر کو جلا ڈالا۔
حال ما پری فکر تو بالاتر است
شعلہ ما کیمیائے احمر است
شمس تبریزی نے کہا کہ اے زنار دار مسلم یہ ذوق و حال ہے تیرا اس سے کیا کام۔
ساختی از برفِ حکمت سنا زو برگ
از سحابِ فکرِ تو بار دتگرگ
ہمارا حال تیری فکر سے بالا تر ہے، ہمارا شعلہ سرخ کیمیا ہے (جس سے تانبہ سونا بن جاتا ہے)۔
آتشے افروز از کاشاکِ خویش
شعلۂ تعمیر کن از کاکِ خویش
تو حکمت کے برف سے ساز و سامان بناتا ہے اور تیری فکر کے بادل سے اولے برستے ہیں۔
علمِ مسلم کامل از سوز دل است
معنی اسلام ترکِ آفل است
اپنے خس و خاشاک سے آگ پیدا کر، اپنی خاک سے شعلہ تعمیر کر۔
چوں زبندِ آفل ابراہیم است
درمیانِ شعلہ ہا نیکو نشست
مسلمان کا علم دل کے سوز سے کمال حاصل کرتا ہے، زائل ہونے والی چیزوں کو ترک کرنا اسلام کا مطلب ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.