بود مردے عارف و صاحب کمال
کوچۂ دل بستہ از وہم و خیال
ایک مرد عارف اور صاحبِ کمال تھا
دل کے کوچے کو وہم اور خیال کی طرف سے بند کئے ہوئے تھے
پادشاہی کردہ در اقلیم دل
بود از ایام غفلت منفعل
دل کی ولایت میں بادشاہت کرتا تھا
غفلت کے زمانے سے شرمندہ تھا
سالہا کردہ عبادت بے ریا
در دلش نگذشت جز ذکرِ خدا
برسوں بے ریا عبادت کی تھی
خدا کے ذکر کے سوا کچھ اس کے دل میں نہ گذرتا تھا
چوں چنین بگذشت او را چند سال
خویش را از کاملاں کردہ خیال
جب اس کو اس طرح پر بہت سے برس گذرے
تو اس نے اپنے آپ کو کاملوں میں سے خیال کیا
گفت مثلم نیست کامل در جہاں
چوں عسس ہستیم بر دل پاسباں
کہنے لگا کہ میرے برابر کوئی جہاں میں کامل نہیں ہے
کوتوال کی طرح میں اپنے دل کا نگہبان ہوں
شہوت و حرص و ہوس کردیم دور
از تعلقہا دلم دارد نفور
شہوت اور حرص اور ہوس کو ہم نے دور کیا ہے
دنیا کے علاقوں سے میرا دل نفرت رکھتا ہے
ایں تصور کرد چوں مردِ خدا
ناگہاں در گوشِ او آمد ندا
جب اس مرد خدا نے یہ خیال کیا
یکبارگی اس کے کان میں یہ آواز آئی
از تکبر چوں نظر کردی بخویش
دور افتادی حجاب آمد بہ پیش
جب کہ تو نے غرور سے اپنے میں نظر کی
تو ہم سے دور جا پڑا اور تیرے آگے پردہ آن پڑا
تانگرد د رفع از تو آں حجاب
کے نہی پادر حریم آِں جناب
جب تک کہ تجھ سے وہ پردہ دور نہ ہوگا
اس عظیم القدر بارگاہ کی چار دیوار ی میں قدم نہ رکھنے پائے گا
منفعل شد شیخ از اسرارِ خویش
شد پریشاں توبہ کرد از کار ِخویش
یہ سن کر شیخ اپنے خیال سے شرمندہ ہوا
پریشان ہوا اور اپنے کام سے توبہ کی
باز بستہ عہدِ تازہ از خدا
تاکند در راہِ حق جاں را فدا
پھر نیا عہد و پیمان خدا کے ساتھ باندھا
تاکہ خدا کی راہ میں جان کو فدا کرے
پاک کن آئینہ دل از غبار
تابیاید عکس روئے آں نگار
دل کے آئینے کو غبار سے صاف کر
تاکہ اس محبوب کے رخ کا عکس نظر آوے
آنچہ می خواہد دلت اے حیلہ جو
نفسِ تو صد حجت آرد بہر ِتو
اے مکار جس چیز کا کہ تیرا دل خواہاں ہوتا ہے
تیرا نفس سو حجتیں تیرے لئے لاتا ہے
گر حرامست می کنی برخود حلال
می شود تسکیں دلت با صد خیال
اگر چہ وہ حرام ہے تو اپنے لئے حلال کرتا ہے
تیرے دل کو سو خیالوں سے تسکین حاصل ہوتی ہے
چوں مسلط برتو گرد د ایں مرض
عدل و انصاف ت بو د بہرغرض
جب کہ یہ مرض تجھ پر غالب ہوجائے گا
تیرا عدل اور انصاف غرض سے خالی نہ ہوگا
باالہی چشمِ مینائی بدہ
در سرم از عشق سودائی بدہ
کوشش کر نفس کے ساتھ کہ جس سے تو عادل ہو
منصفی کر کہ جس سے تو صاحب دل ہو
آتش افگن در دلمِ مانند طور
شعلہ بر خیزد و گرد و زنگ دور
یا الہی چشم بینا مجھ کو دے
میرے سر میں عشق کا سودا دے
سالہا شد از تو می خواہم ترا
حاجتم را چوں نمی سازی روا
میرے دل میں طور کی طرح آگ ڈال
کہ شعلہ اٹھے اور مورچہ دور ہوجائے
از لسان الغیب ایں گرد و نوید
از درِ تو کس نگشتہ نا امید
برسوں ہوگئی کہ تجھ سے تجھ کو چاہتا ہوں
تو میری حاجت کو کیوں روا نہیں کرتا
ہر کہ بر درگاہِ تو رُو آورد
ناامید از درگہِ تو چوں رود
غیبی زبان سے یہ خوش خبری مل رہی ہے
کہ تیرے دروازے سے کوئی نا امید نہیں پھرا ہے
ہر کہ آید بر درت امید وار
شاہدِ مقصود یا بد در کنار
جو کہ تیری بارگاہ کی طرف رخ لائے گا
نا امید تیری درگاہ سے کیوں جائے گا
اے خدائے من بحق مصطفیٰ
از طفیل حرمتِ آل عبا
جو کہ تیرے در پر امیدوار بن کر آتا ہے
مقصود کا معشوق آغوش میں پاتا ہے
روزِ محشر دار با آلِ رسول
از طفیلِ مقبلاں گرد د قبول
اے میرے خدا بطفیل حضرت محمد مصطفیٰ کے
اور بطفیل حرمت آل عبا کے
مأخذ :
- کتاب : مثنوی بو علی شاہ قلندر (Pg. 36)
-
Author :بو علی شاہ قلندر
-
مطبع : مطبع قیومی کانپور
(1926)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.