نبوت ہے چشمہ سو آبِ حیات
ولایت کے صدقے سوں آتا ہے ہات
نبوت خزانہ یو اسرار ہے
ولایت طرف سو ہے اظہار ہے
نبوت جواہر کی جیوں کھان ہے
ولایت سو جوہر یو ایمان ہے
نبوت ولایت سوں سب کام ہے
دیکھو تو ہی خلقت کو آرام ہے
دیا حق اسے سیف اور یہ قلم
حوالے کیا دین کا اس علم
علی کیچ ہے ہات آب حیات
علی کیچ صدقے سوں آتا ہے ہات
مبارک عجب نام ہے شاہ باز
محمد حسینی ہیں گیسو دراز
او تین خانوادہ ہیں یک چشت کا
دیا ہات حق اس اس کلی بہشت کا
وہی دیک دکن کو جامی ہوا
وہی بادشاہ ایک نامی ہوا
وہی بادشاہ سب سلاطین کا
دیا تخت حق اس دنیا دین کا
مریداں دیکھو شہ کے قابل ہوئے
ایکس سوں دیکھو ایک کامل ہوئے
اتھے یک شہنشاہ کے پیش امام
اتھا علم تحصیل ان پر تمام
کتے نام ان کا اتھاشہ جمال
اتھے مغربی اور صاحبِ کمال
اول بات من عرف کی بول کر
سو بعد از فقد عرف سب کھول کر
کیے راز مکشوف یک بات میں
دیے پنچ گنج کا کلی ہات میں
کتک دن کو آ کر ملے شہ کمال
کرم ان اوپر تب کیے شہ جمال
جمع کر مریدوں میں ان کو اول
چلے سیر کرتے یو جنگلے جنگل
مرید پیر پر جاں فشانی کیے
اپس کو کتے اس میں فانی کیے
اپس میں اپیں یک دگر ہو ملے
مرید پیر مل یک دگر ہو چلے
سفر پھر کے جب آئے ہیں شہ جمال
شہنشاہ کاتب ہوا تھا وصال
حسینی کے غم سوں وہ ناتاب لا
سِنا پھوٹ جا کر سو پھوٹا ہیا
مرید کو کہے تم خلافت کرو
بیجاپور تم (جا) ہدایت کرو
اتا راز عالم پہ کھولو تمہیں
شہنشہ کی بات بولو تمہیں
مرید کے اوپر یو کھولے کلام
وداع ہوچکے شاہ دارالسلام
اتا صف کرتا ہوں برہان کا
او برحق دسا ظل سبحان کا
او حنان ہے او منان ہے
او دیان ہے اور برہان ہے
کتاباں ہوئے اور چلا یہ کلام
بلخ اور بخارا یو سب روم و شام
کہے اب طلب مجہ کیا ہے حضور
اتا مجہ کو جانا ہوا لا ضرور
نہ یک ٹھار دو مل کے رہتے پلنگ
نہ یک میان میں دو سماتے فرنگ
کہے سر اوپر ہے تمہارے خدا
ہمیں اب تمہارے سوں ہوتے وداع
ازل سوں اسے حق یو دولت دیا
ولایت کی خلعت عنایت کیا
اول سوں اسے راز کا علم تھا
ازل سوں اسے علم اور حلم تھا
وہ ظاہر تو لئی مست سرشار تھے
ولیکن او باطن میں ہوشیار تھے
دنیا دیں سے حق دیا تھا اسے
قریب دار حق نے کیا تھا اسے
امینؔ نے حضور سوں خلافت دیے
مریداں کرو کر اجازت دیے