Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تفسیر قول حکیم: بہ ہرچہ از راه و امانی چہ کفر آں حرف و چہ ایماں بہرچہ از دوست دور افتی چہ زشت آں نقش و چہ زیبا و در معنی قولہ علیہ السلام إن سعدا لغیو ر و أنا أغیر من سعد و الله أغیر منی و من غیرته حرم الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

رومی

تفسیر قول حکیم: بہ ہرچہ از راه و امانی چہ کفر آں حرف و چہ ایماں بہرچہ از دوست دور افتی چہ زشت آں نقش و چہ زیبا و در معنی قولہ علیہ السلام إن سعدا لغیو ر و أنا أغیر من سعد و الله أغیر منی و من غیرته حرم الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    اردو ترجمہ: سجاد حسین

    تفسیر قول حکیم: بہ ہرچہ از راه و امانی چہ کفر آں حرف و چہ ایماں بہرچہ از دوست دور افتی چہ زشت آں نقش و چہ زیبا و در معنی قولہ علیہ السلام إن سعدا لغیو ر و أنا أغیر من سعد و الله أغیر منی و من غیرته حرم الفواحش ما ظهر منها و ما بطن

    حکیم سنائی کے قول کی تفسیر خدا اُنکی روح کو راحت دے جس چیز کی وجہ سے تو راستہ سے بھٹک جائے وہ کلمۂ کفر ہوا تو کیا اور ایمان ہوا تو کیا جس سے تم دوست سے دور ہو جاؤ وہ نقش بُرا ہو تو کیا اچھا ہو تو کیا اور آنحضور صلیّ اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کے معنیٰ کہ سعدؓ بیشک غیر تمند ہے اور میں اُس سے بھی زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے اور اللہ نے اپنی غیرت کی وجہ سے تمام کھلی اور ڈھکی بدکاریوں کو حرام قرار دیا ہے

    جملہ عالم ز آں غیور آمد کہ حق

    برد در غیرت بریں عالم سبق‌‌

    تمام دنیا اِس لئے غیرت مند بنی کہ اللہ تعالیٰ

    غیرت میں اِس دنیا پر سبقت لے گیا ہے

    او چو جانست و جہاں چوں کالبد

    کالبد از جان پذیرد نیک و بد

    وہ ان کی طرح ہے اور دنیا جسم کی طرح

    جسم، جان سے نیکی اور بدی قبول کرتا ہے

    ہر کہ محراب نمازش گشت عین

    سوۓ ایماں رفتنش می‌‌داں تو شین‌‌

    جس کی نماز کی محراب ذات ہو

    اُس کا ایمان کی طرف جانا تو عیب سمجھ

    ہر کہ شد مر شاه را او جامہ دار

    ہست خسراں بہر شاہش اتجار

    جو بادشاہ کا مہتمم توشہ خانہ ہو

    اُس کا بادشاہ کے لئے تجارت کرنا ٹوٹے کی بات ہے

    ہر کہ با سلطاں شود او ہمنشیں

    بر درش بودن بود حیف و غبیں

    جو بادشاہ کا ہمنشیں ہو

    اُس کا دروازہ پر بیٹھنا قابل افسوس اور نقصان بات ہے

    دست‌‌بوسش چوں رسید از پادشاه

    گر گزیند بوس پا باشد گناه‌‌

    جب اسکو بادشاہ کی دست بوسی حاصل ہو گئی

    اگر پابوسی اختیار کرے تو گناہ ہوگا

    گر چہ سر بر پا نہادن خدمتست

    پیش آں خدمت خطا و زلتست‌‌

    اگر چہ پیروں پر سررکھ دینا خدمت ہے

    (لیکن) اُس خدمت کے مقابلہ میں غلطی اور لغزش ہے

    شاه را غیرت بود بر ہر کہ او

    بو گزیند بعد از آں کہ دید رو

    بادشاہ کو اُس پر غیرت آئے گی جو

    خوشبو اِختیار کرے جبکہ چہرہ دیکھ لیا ہے

    غیرت حق بر مثل گندم بود

    کاه خرمن غیرت مردم بود

    اللہ کی غیرت، گیہوں جیسی ہے

    انسانوں کی غیرت بھوسے کی طرح ہے

    اصل غیرتہا بدانید از الہ

    آں خلقاں فرع حق بےاشتباه‌‌

    غیرتوں کی جڑ خدا سے سمجھو

    بلا شبہ مخلوق کی غیرت خدا کی غیرت کی شاخ ہے

    شرح ایں بگذارم و گیرم گلہ

    از جفاۓ آں نگار ده دلہ

    اِس کی شرح چھوڑتا ہوں، شکوہ شروع کرتا ہوں

    اُس دس دل والے محبوب کی جفا کا

    نالم ایرا نالہا خوش آیدش

    از دو عالم نالہ و غم بایدش‌‌

    اسلئے روتا ہوں کہ اُسکو رونا اچھا لگتا ہے

    دونوں جہاں کی جانب سے اُسکو رونا پسند آتا ہے

    چوں ننالم تلخ از دستان او

    چون نیم در حلقۂ مستان او

    اُسکے ناز و انداز کی وجہ سے کڑوے آنسو کیوں نہ بہاؤں

    اُس ے عاشقوں کے حلقے میں کیوں نہ داخل ہوں؟

    چوں ننالم ہمچو شب بےروز او

    بے وصال روۓ روز افروز او

    اُس کے دن کے بغیر میں رات کی طرح کیوں نہ ہو جاؤں

    اُس کے، دن کو روشن کرنیوالے چہرہ کی وصال کے بغیر

    ناخوش او خوش بود در جان من

    جان فدا‎ۓ یار دل رنجان من‌‌

    اُسکی جانب سے ناگوار، میری جان کو گوارا ہے

    دل دُکھانے والے یار پر میری جان قربان ہے

    عاشقم بر رنج خویش و درد خویش

    بہر خشنودی شاه فرد خویش‌‌

    میں اپنے رنج اور اپنے درد کا عاشق ہوں

    اپنے بے مثال شاہ کی خوشنودی کے لئے

    خاک غم را سرمہ سازم بہر چشم

    تا ز گوہر پر شود دو بحر چشم‌‌

    میں غم کی خاک کا آنکھوں کے لئے سُرمہ بناتا ہوں

    تاکہ آنکھوں کے دونوں سمندر موتیوں سے بھر جائیں

    اشک کآں از بہر او بارند خلق

    گوہرست و اشک پندارند خلق‌‌

    لوگ جو آنسو اس کے لئئے بہاتے ہیں

    موتی ہیں، لوگ اُنکو آنسو سمجھتے ہیں

    من ز جان جاں شکایت میکنم

    من نیم شاکی روایت میکنم‌‌

    میں جانِ جاناں کی شکایت کرتا ہوں

    میں شاکی نہیں ہوں، بیان کر رہا ہوں

    دل ہمی‌‌ گوید کز او رنجیده‌‌ام

    وز نفاق سست می‌‌خندیده‌‌ام‌‌

    دل کہتا ہے میں اُس سے رنجیدہ ہوں

    کمزور نفاق سے، میں ہنستا ہوں

    راستی کن اے تو فخر راستاں

    اے تو صدر و من درت را آستاں

    اے وہ ذات کی تو سچّوں کا فخر ہے! سیدھا چل

    اے وہ کہ تو صدر ہے اور میں تیرے در کی دہلیز ہوں

    آستان و صدر در معنی کجاست

    ما و من کو آں طرف کآں یار ماست‌‌

    حقیقتاً آستاں اور صدر کہاں ہے؟

    جہاں ہمارا یار ہے وہاں’’ماو من‘‘ کہاں ہے؟

    اے رہیده جان تو از ما و من

    اے لطیفۂ روح اندر مرد و زن‌‌

    اے وہ کہ تیرے ذات’’ما و من‘ ‘سے آزاد ہے

    اے! مرد اور عورت میں لطیفۂ روح

    مرد و زن چوں یک شود آں یک توئی

    چونکہ یکہا محو شد آں کہ تو‏ئی

    مرد و زن جب ایک ہو جائیں وہ ایک تو ہی ہے

    جب سب مٹ جائیں اب تو وہی ہے

    این من و ما بہر آں بر ساختی

    تا تو با خود نرد خدمت باختی‌‌

    اِس’’من و ما‘‘ کو تونے اِس لئے بنایا ہے

    تاکہ تو خدمت کی بازی کھیلے

    تا من و توہا ہمہ یک جاں شوند

    عاقبت مستغرق جاناں شوند

    جب’’من و تو‘‘ سب ایک جان ہو جائینگے

    انجام کار جاناں میں فنا ہو جائینگے

    ایں ہمہ ہست و بیا اے امر کن

    اے منزه از بیان و از سخن‌‌

    یہ سب کچھ ہے، اور آجا اے حاکم

    اے وہ (ذات) جو بیان اور کلام سے پاک ہے

    جسم جسمانہ تواند دیدنت

    در خیال آرد غم و خندیدنت‌‌

    جسمانی آنکھ تجھے نہیں دیکھ سکتی ہے

    تجھے خیال میں لا سکتا ہے غم اور ہنسنا؟

    دل کہ او بستۂ غم و خندیدنست

    تو مگو کو لایق آں دیدنست‌‌

    وہ دل جو غم اور ہنسی سے وابستہ ہے

    تو بتا وہ دیدار کے قابل ہے؟

    آنکہ او بستۂ غم و خنده بود

    او بدیں دو عاریت زنده بود

    جو غم اور ہنسی سے سے مقیّد ہو

    وہ اِن دونوں عارضی چیزوں سے زندہ رہتا ہے

    باغ سبز عشق کو بے منتہاست

    جز غم و شادی در او بس میوہاست‌‌

    عشق کا سبز باغ جو دائمی ہے

    اُس میں غم اور خوشی کے علاوہ بہت سے میوے ہیں

    عاشقی زیں ہر دو حالت برترست

    بے بہار و بے خزاں سبز و ترست‌‌

    عاشقی اِن دونوں حالتوں سے بلند و بالا ہے

    (وہ) بے بہار اور بے خزاں سبز اور تر ہے

    ده زکوۃ روۓ خوب اے خوب رو

    شرح جان شرحہ شرحہ باز گو

    اے (محبوب) خوبرو اپنے مکھڑے کی زکوٰۃ عطا کر

    پارہ پارہ جان کی شرح پھر کر دے

    کز کرشم غمزۂ غمازۂ

    بر دلم بنہاد داغے تازۂ

    چغلخور ناز کے انداز سے

    اُس نے میرے دل پر تازہ داغ لگا دیا ہے

    من حلالش کردم از خونم بریخت

    من ہمی‌‌ گفتم حلال او می‌‌ گریخت‌‌

    میں نے اُس کے لئے حلال کر دیا اگر وہ میرا خون بہائے

    میں حلال حلال کہتا رہا وہ گریز کرتا رہا

    چوں گریزانی ز نالۂ خاکیاں

    غم چہ ریزی بر دل غمناکیاں

    خاکساروں کے نالہ سے تو کیوں گریزاں ہے؟

    غمگینوں کے دل پر کیوں غم پاشی کرتا ہے؟

    اے کہ ہر صبحی که از مشرق بتافت

    ہمچو چشمۂ مشرقت در جوش یافت‌‌

    اے محبوب! ہر صبح جو مشرق سے نمودار ہوئی

    اُس نے مشرق کے سورج کی طرح تجھے تاباں پایا

    چوں بہانہ دادی ایں شیدات را

    اے بہانہ شکر لبہات را

    اپنے عاشق سے تو کیوں بہانے کرتا ہے

    اے وہ (محبوب) جس کے ہونٹوں کی شکر کی کوئی قیمت نہیں ہے

    اے جہان کہنہ را تو جان نو

    از تن بےجان و دل افغاں شنو

    اے (محبوب) پُرانی دنیا کی تو تازہ جان ہے

    بے جان اور بے دل جسم کی فریاد سُن لے

    شرح گل بگذار از بہر خدا

    شرح بلبل گو کہ شد از گل جدا

    (اے دل) خدا کے لئے پھول کی تشریح چھوڑ

    اُس بلبل کی تفصیل بتا جو پھول سے جدا ہوگئی ہے

    از غم و شادی نباشد جوش ما

    با خیال و وہم نبود ہوش ما

    غم اور خوشی سے ہمارا جوش (وابستہ) نہیں ہے

    ہمارا ہوش خیال اور وہم سے (وابستہ) نہیں ہے

    حالتے دیگر بود کآں نادرست

    تو مشو منکر کہ حق بس قادرست‌‌

    ایک دوسری ہی حالت ہے جو کمیاب ہے

    تو مُنکر نہ بن اللہ بہت قدرت والا ہے

    تو قیاس از حالت انساں مکن

    منزل اندر جور و در احساں مکن‌‌

    تو انسان کی حالت پر قیاس نہ کر

    ظلم و احسان میں ٹکاؤ نہ کر

    جور و احساں رنج و شادی حادثست

    حادثاں میرند و حقشاں وارثست‌‌

    ظلم اور احسان، رنج اور خوشی سب نو پیدا ہیں

    نو پیدا چیزیں فنا ہو جاتی ہیں اور اللہ انکا وارث ہے

    صبح شد اے صبح را پشت و پناه

    عذر مخدومی حسام الدین بخواه‌‌

    اے صبح کے پشت وپناہ! صبح ہو گئی

    میری مخدوم حسام الدّین سے معذرت کر

    عذر خواه عقل کل و جاں تویی

    جان جان و تابش مرجاں تویی‌‌

    عقلِ کل اور جان سے معذرت چاہنے والا تو ہی ہے

    جان کی جان اور مونگے کی چمک تو ہی ہے

    تافت نور صبح و ما از نور تو

    در صبوحی با مۓ منصور تو

    ہماری صبح کا نور تیرے نور سے چمک اُٹھا

    صبح کی شراب نوشی کے وقت تیری منور شراب کے ذریعہ

    دادۂ تو چوں چنیں دارد مرا

    باده کی بود کو طرب آرد مرا

    اللہ کی عطا جب مجھے ایسا بنائے رکھتی ہے

    شراب کیا ہوتی ہے جو مجھے مست کرے؟

    باده در جوشش گداۓ جوش ماست

    چرخ در گردش گداۓ ہوش ماست‌‌

    شراب، جوش میں ہمارے جوش کی بھکاری ہے

    آسمان، گردش میں ہمارے ہوش پر قربان ہے

    باده از ما مست شد نے ما از او

    قالب از ما ہست شد نے ما از او

    شراب ہم سے مست ہوئی ہے، نہ کہ ہم اُس سے

    جسم ہماری وجہ سے پیدا ہوا ہے نہ کہ ہم اُسکی وجہ سے

    ما چو زنبوریم و قالبہا چو موم

    خانہ خانہ کرده قالب را چو موم‌‌

    ہم شہد کی مکّھی کی طرح ہیں اور جسم مُوم کی طرح

    اُس نے جسم کی مُوم کی طرح خانہ خانہ بنا رکھا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے