تفسیر ما شاء الله کان
دلچسپ معلومات
اردو ترجمہ: سجاد حسین
تفسیر ما شاء الله کان
جو اللہ نے چاہا ہوا جو نہ چاہا ہوا کی تفسیر
ایں ہمہ گفتیم لیک اندر بسیچ
بے عنایات خدا ہیچیم ہیچ
یہ سب کچھ ہم نے کہا لیکن ارادہ میں
خدا کی عنایتوں کے بغیر ہم ہیچ در ہیچ ہیں
بے عنایات حق و خاصان حق
گر ملک باشد سیاہستش ورق
اللہ اور اللہ کے مخصوص بندوں کی عنایتوں کے بغیر
اگر فرشتہ (بھی) ہے تو اُسکا نامہ اَعمال سیاہ ہے
اے خدا اے فضل تو حاجت روا
با تو یاد ہیچ کس نبود روا
اے خدا! اے قدرت والے کیفیت اور کمیّت سے
اِس قدر بلند محل تجھ سے بنا ہے
ایں قدر ارشاد تو بخشیدۂ
تا بدیں بس عیب ما پوشیدۂ
اسقدر رہنمائی تو نے بخشی ہے
جس سے تو نے بہت سے عیب ڈھک دئے ہیں
قطرۂ دانش کہ بخشیدی ز پیش
متصل گرداں بہ دریاہاۓ خویش
پہلے سے تونے جو عِلم کا قطرہ بخشا ہے
اُس کو اپنے دریاؤں سے مِلا دے
قطرۂ علمست اندر جان من
وارہانش از ہوا وز خاک تن
میری جان میں عِلم کا ایک قطرہ ہے
اُسکو خواہش اور جسم کی مِٹّی سے بچا دے
پیش از آں کیں خاکہا خسفش کنند
پیش از آں کیں بادہا نشفش کنند
اس سے پہلے کہ یہ مِٹیاں اُسکو دھنسا لیں
اِس سے پہلے کہ یہ ہوائیں اُسکو سُکھائیں
گر چہ چوں نشفش کند تو قادری
کش از ایشاں واستانی واخری
اگرچہ تو اِس پر قادر ہے کہ جب وہ اُسکو سُکھائیں
کہ اُس کو تو اُن سے واپس لے لے
قطرۂ کو در ہوا شد یا بریخت
از خزینۂ قدرت تو کے گریخت
وہ قطرہ جو ہوا میں اُڑ گیا یا بہہ گیا
تیری قدرت کے خزانے سے کب بھاگ سکتا ہے؟
گر در آید در عدم یا صد عدم
چوں بخوانیش او کند از سر قدم
اگر وہ عدم یا سو عدموں میں بھی آجائے
جب تو اُسے بُلائے وہ سَر کے بل آئے
صد ہزاراں ضد را ضد میکشد
بازشاں حکم تو بیروں میکشد
لاکھوں متضاد چیزیں متضاد چیزوں کو فنا کرتی ہیں
پھر تیرا فضل اُن کو باہر نکال لاتا ہے
از عدمہا سوۓ ہستی ہر زماں
ہست یا رب کارواں در کارواں
ہر وقت عدموں سے وجود کی طرف
اے خدا! قافلہ در قافلہ(رواں) ہے
خاصہ ہر شب جملہ افکار و عقول
نیست گردد غرق در بحر نغول
خصوصاً ہر رات تمام فکریں اور عقلیں
نیند کے سمندر میں غرق ہو کر معدوم ہو جاتی ہیں
باز وقت صبح آں اللہیاں
بر زنند از بحر سر چوں ماہیاں
پھر صبح کو خدا پرستوں کی طرح
مچھلیوں کی طرح سمندر سے سر ابھارتی ہیں
در خزاں آں صد ہزاراں شاخ و برگ
در ہزیمت رفتہ در دریاۓ مرگ
خزاں (کے موسم) میں لاکھوں شاخیں اور پتے
شکست کھا کر موت کے دریا میں چلے جاتے ہیں
زاغ پوشیده سیہ چوں نوحہ گر
در گلستاں نوحہ کرده بر خضر
کوّے نے نوحہ گر کی طرح سیاہ لباس پہنا ہے
باغ میں سبزہ پر نوحہ کرتا ہے
باز فرماں آید از سالار ده
مر عدم را کانچہ خوردی باز ده
پھر ربّ العالمین کی جانب سے حکم آتا ہے
عدم کیلئے، کہ جو کچھ تو نے کھایا ہے واپس دے
آنچہ خوردی واده اے مرگ سیاه
از نبات و دارو و برگ و گیاه
اے کالی موت! جو تونے کھایا ہے، واپس دے
پودے اور گلاب اور پتّے اور گھاس
اے برادر عقل یک دم با خود آر
دم بدم در تو خزانست و بہار
اے بھائی! تھوڑی دیر ہوش سنبھال
جتھ میں (بھی) ہر وقت خزاں اور بہار ہے
باغ دل را سبز و تر و تازه بیں
پر ز غنچہ ورد و سرو و یاسمیں
دل کے باغ کو سبز اور ترو تازہ دیکھ
غُنچہ اور گُلاب اور سرو اور چنبیلی ہے
ز انبہی برگ پنہاں گشتہ شاخ
ز انبہی گل نہاں صحرا و کاخ
پتّوں کی کثرت سے شاخیں ڈھکی ہوئی ہیں
پھولوں کی کثرت سے جنگل اور محل ڈھکے ہوئے ہیں
این سخنہاۓ کہ از عقل کلست
بوۓ آں گلزار و سرو و سنبلست
یہ باتیں جو عقل کل کی جانب سے ہیں
سرو اور سُنبل کے چمن کی خوشبو ہیں
بوۓ گل دیدی کہ آنجا گل نبود
جوش مل دیدی کہ آنجا مل نبود
جس جگہ پھول نہ تھا تونے پھول کی خوشبو سونگھی
تونے شراب کا نشہ اُس جگہ دیکھا ہے جہاں شراب نہ تھی؟
بو قلاورزست و رہبر مر ترا
مے برد تا خلد و کوثر مر ترا
خوشبو تیری راہنما اور رہبر ہے
تجھے جنّت اور کوثر تک لیجائے گی
بو دواۓ چشم باشد نور ساز
شد ز بوۓ دیدۂ یعقوب باز
خوشبو نور پیدا کرنیوالی، آنکھ کی دوا ہے
خوشبو سے (حضرتِ) یعقوب کی آنکھیں کھل گئیں
بوۓ بد مر دیده را تاری کند
بوۓ یوسف دیده را یاری کند
بد بو آنکھ کو تاریک کرتی ہے
یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنکھ کی مدد کرتی ہے
تو کہ یوسف نیستی یعقوب باش
ہمچو او با گریہ و آشوب باش
تو جب یوسف نہیں ہے یعقوب بنجا
اُس کی طرح رونے اور مصیبت میں رہ
بشنو ایں پند از حکیم غزنوی
تا بیابی در تن کہنہ نوی
حکیم غزنوی سے یہ نصیحت سُن لے
تاکہ پرانے جسم میں نیا پن پائے
ناز را روۓ بباید ہمچو ورد
چوں نداری گرد بد خوئ مگرد
ناز کرنیکے لئے گلاب جیسا چہرہ چاہئے
جب تو نہیں رکھتا ہے بد مزاجی کے قریب نہ جا
زشت باشد روۓ نازیبا و ناز
سخت باشد چشم نابینا و درد
عیب ہے، اندھی آنکھ اور کھُلی ہوئی
بری بات ہے بدصورت چہرہ اور ناز
پیش یوسف نازش و خوبی مکن
جز نیاز و آه یعقوبی مکن
یوسف کے سامنے ناز اور نخرے نہ کر
سوائے عاجزی اور یعقوبی آہ کے (کچھ) نہ کر
معنی مردن ز طوطی بد نیاز
در نیاز و فقر خود را مرده ساز
طوطی کے مرنے کا مطلب عاجزی تھا
عاجزی اور احتیاج میں اپنے آپ کو مردہ بنالے
تا دم عیسی ترا زنده کند
ہمچو خویشت خوب و فرخنده کند
تاکہ (خصرت) عیسیٰؑ کا دم تجھے زندہ کردے
اپنی طرح تُجھے نیک اور مُبارک بنادے
از بہاراں کے شود سر سبز سنگ
خاک شو تا گل برویی رنگ رنگ
پتّھر (موسم) بہار میں کب سرسبز ہوتا ہے
مٹی بن جا تاکہ رنگ برنگ کے پھول اُگیں
سالہا تو سنگ بودی دل خراش
آزموں را یک زمانے خاک باش
تو سالوں دلخراش پتھر رہا ہے
آزمائش کے طور پر تھوڑی دیر کیلئے خاک بن جا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.