Sufinama

بیان آنکہ کشتن و زہر دادن مرد زرگر بہ اشارت الہی بود نہ بہوائے نفس و تامل فاسد

رومی

بیان آنکہ کشتن و زہر دادن مرد زرگر بہ اشارت الہی بود نہ بہوائے نفس و تامل فاسد

رومی

MORE BYرومی

    بیان آنکہ کشتن و زہر دادن مرد زرگر بہ اشارت الہی بود نہ بہوائے نفس و تامل فاسد

    اس بیان میں کہ سنار کو مارنا خدائی!اشارہ پر تھا ، نہ کسی برے خیال سے

    کشتن ایں مرد بر دست حکیم

    نے پۓ اومید بود و نۓ ز بیم‌‌

    اس مرد کا ، طبیب کے ہاتھ سے ہلاک ہونا

    نہ کسی امید کی بناء پر تھا، نہ کسی خوف سے

    او نکشتش از براۓ طبع شاہ

    تا نیامد امر و الہام الہ

    اس نے بادشاہ کی خاطر سے اسے قتل نہیں کیا

    جب تک کہ اللہ کی طرف سے حکم اور الہام نہ آیا

    آں پسر را کش خضر ببرید حلق

    سر آں را در نیابد عام خلق

    جو جان عطا کرتا ہے اگر قتل بھی کرے تو جائز ہے

    وہ (اللہ کا) قائم مقام ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے

    آنکہ از حق یابد او وحی و جواب

    ہر چہ فرماید بود عین صواب

    حضرت اسماعیل کی طرح اس کے سامنے سر جھکادے

    اور ہنسی خوشی اس کی تلوار سے قتل ہوجا

    آنکہ جاں بخشد اگر بکشد رواست

    نایبست و دست او دست خداست‌‌

    تاکہ تیری روح ہمیشہ خوش رہے

    جس طرح کہ احمد (مجتبیٰ) کی روح پاک اللہ کے ساتھ

    ہمچو اسماعیل پیشش سر بنہ

    شاد و خنداں پیش تیغش جاں بدہ

    عاشق خوشی کا جام اس وقت پیتے ہیں

    جب کہ معشوق اپنے ہاتھ سے ان کو قتل کرتے ہیں

    تا بماند جانت خنداں تا ابد

    ہمچو جان پاک احمد با احد

    وہ خون بادشاہ نے شہوت کی خاطر نہیں کیا

    تو (اس معاملہ میں) بدگمانی اور جھگڑے کو چھوڑ دے

    عاشقاں جام فرح آنگہ کشند

    کہ بہ دست خویش دیدہ شاں کشند

    یہ محنت اور مشقت تو اس لیے ہے

    کہ بھٹی چاندی سے میل کو نکال دے

    شاہ آں خوں از پۓ شہوت نکرد

    تو رہا کن بد گمانی و نبرد

    کھرے اور کھوٹے کا امتحان اس لئے ہے

    تاکہ وہ جوش میں آئے اور سونا اپنا میل اوپر لے آئے

    تو گماں بردی کہ کرد آلودگی

    در صفا غش کے ہلد پالودگی‌‌

    اگر اس کا کام خدا کے الہام سے نہ ہوتا

    تو وہ پھاڑ کھانے والا کتا ہوتا ، بادشاہ نہ ہوتا

    بہر آنست ایں ریاضت ویں جفا

    تا بر آرد کورہ از نقرہ جفا

    وہ شہوت اور حرص و ہوس سے پاک تھا

    اس نے اچھا کیا لیکن اچھا بظاہر برا

    بہر آنست امتحان نیک و بد

    تا بجوشد برسر آرد زر ز بد

    اگرچہ خضرؑ نے سمندر میں کشتی توڑ دی

    (لیکن) خضر کے توڑنے میں سو درستیاں تھیں

    گر نبودے کارش الہام الہ

    او سگے بودے دراننده نہ شاہ

    باوجود تمام نور ہنر کے موسیٰ کا خیال

    اس تک نہ پہنچا، تو بھی بے پر کی نہ اڑا

    پاک بود از شہوت و حرص و ہوا

    نیک کرد او لیک نیک بدنما

    وہ سرخ پھول ہے تو اس کو خون نہ کہہ

    وہ عقل سے مست ہے تو اس کو دیوانہ نہ سمجھ

    گر خضر در بحر کشتی را شکست

    صد درستی در شکست خضر ہست

    اگر مسلمان کا خون بہانا اس کا مقصود ہوتا

    تو میں کافر ہوتا اگر اس کا نام بھی لیتا

    وہم موسی با ہمہ نور و ہنر

    شد از محجوب تو بے پر مپر

    بد بخت (اور سنگدل) کی تعریف سے عرش لرزتا ہے

    اور اس کی تعریف سے پرہیزگار بدگماں ہوجاتا ہے

    آں گل سرخست تو خونش مخواں

    مست عقلست او تو مجنونش مخواں

    وہ بادشاہ تھا، اور بہت باخبر بادشاہ تھا

    وہ خاص تھا اوراللہ تعالیٰ کا مخصوص تھا

    گر بدے خون مسلماں کام او

    کافرم گر بردمے من نام او

    وہ آدمی جس کو ایسا بادشاہ قتل کرتا ہے

    اس کو تخت اور بہترین مرتبہ عنایت فرماتا ہے

    می بہ لرزد عرش از مدح شقی

    بد گماں گردد ز مدحش متقی

    اگر (اللہ تعالیٰ) اس کا فائدہ قہر میں نہ دیکھتا

    تو وہ سراپا لطف و کرم، قہر کیوں کرتا

    شاہ بود و شاه بس آگاہ بود

    خاص بود و خاصۂ الله بود

    پچنے لگانے کی تکلیف سے بچہ تو لرزتا ہے

    (لیکن اس کی) مہربان ماں اس تکلیف سے خوش ہوتی ہے

    آں کسے را کش چنیں شاہے کشد

    سوۓ بخت و بہتریں جاہے کشد

    وہ آدھی جان لیتا ہے تو سو جانیں دیتا ہے

    (بلکہ) اتنا دیتا ہے کہ جو تیرے خیال میں بھی نہیں آسکتا

    گر ندیدے سود او در قہر او

    کے شدے آں لطف مطلق قہر جو

    بہ چہ می لرزد از نیش حجام

    مادر مشفق دراں غم شاد کام

    نیم جاں بستاند و صد جاں دہد

    آنکہ در وہمت نیاید آں دہد

    تو قیاس از خویش می گیری و لیک

    دور دور افتادۂ بنگر تو نیک

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے