Sufinama

باز ترجیح نہادن شیر جہد را بر توکل

رومی

باز ترجیح نہادن شیر جہد را بر توکل

رومی

MORE BYرومی

    باز ترجیح نہادن شیر جہد را بر توکل

    شیر کا توکل پر کوشش کو دوسری بار ترجیح دینا

    گفت شیر آرے ولے رب العباد

    نردبانے پیش پائے ما نہاد

    شیر نے کہا، ہاں لیکن بندوں کے پروردگار نے

    ہمارے پیروں کے پاس سیڑھی رکھدی ہے

    پایہ پایہ رفت باید سوئے بام

    ہست جبری بودن اینجا طمع خام

    کوٹھے پر رفتہ، رفتہ چڑھنا چاہئے

    اس مقام پر جبری ہونا خام خیالی ہے

    پاۓ داری چوں کنی خود را تو لنگ

    دست داری چوں کنی پنہاں تو چنگ

    تو پیر رکھتا ہے ، کیوں اپنے کو لنگڑا بناتا ہے ؟

    تو ہاتھ رکھتا ہے ، پنجہ کو کیوں چھپاتا ہے ؟

    خواجہ چوں بیلے بدست بندہ داد

    بے زباں معلوم شد او را مراد

    آقا نے، جب غلام کو بیلچہ تھما دیا

    بغیر کچھ کہے اس کا مقصد معلوم ہوگیا

    دست ہمچوں بیل اشارتہاۓ اوست

    آخر اندیشی عبارتہاۓ اوست‌‌

    بیلچہ کی طرح، ہاتھ، اس کے اشارے ہیں

    جس کا مطلب انجام بینی ہے

    چوں اشارتہاش را بر جاں نہی

    در وفائے آں اشارت جاں دہی

    جب تو اس کے اشاروں کو دل پر جمالے گا

    اور ان اشاروں کو پورا کرنے میں جان دیدے گا

    پس اشارتہاۓ اسرارت دہد

    بار بر دارد ز تو کارت دہد

    تب اس کے اشارے تجھے راز عطا کریں گے

    تیرا بوجھ ہلکا کر دیں گے ، تجھے کام دیں گے

    حاملی محمول گرداند ترا

    قابلی مقبول گرداند ترا

    تو بار بردار ہے تو تجھے سوار کردے گا

    تو (حکم کو) ماننے والا ہے تو تجھے مقبول بنا دے گا

    قابل امر وئے قابل شوی

    وصل جوئے بعد از آں واصل شوی

    تو اس کے حکم کو قبول کرنے والا ہے (دربار کے ) قابل ہوجائیگا

    تو وصل کا طالب ہے، اس کے بعد وصال والا بن جائیگا

    سعی شکر نعمتش قدرت بود

    جبر تو انکار آں نعمت بود

    کوشش، قدرت کی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے

    اور تیرا جبری ہونا اس نعمت کا انکار ہے

    شکر قدرت قدرتت افزوں کند

    جبر نعمت از کفت بیروں کند

    نعمت پر شکر ادا کرنا تیری نعمت کو بڑھا ئیگا

    اور نعمت کا کفر (اسکو) تیرے قبضہ سے نکالدیگا

    جبر تو خفتن بود در رہ مخسب

    تا بہ بینی آں در و درگہ مخسب

    اپنے آپ کو مجبور سمجھنا ، سوجانا ہے ، راستہ میں نہ سو

    جب تک اس دراور درگاہ کو نہ دیکھ لے ، نہ سو

    ہاں مخسب اے جبری بے اعتبار

    جز بزیر آں درخت میوه‌‌ دار

    اے بے بھروسہ جبری! ہرگز نہ سونا

    اس میوہ دار درخت کے نیچے کے سوا

    تا کہ شاخ افشاں کند ہر لحظہ باد

    بر سر خفتہ بہ ریزد نقل و زاد

    تاکہ ہوا ہر لحظہ شاخ کو ہلائے

    (اور) ہمیشہ تیرے لئے نقل و توشہ مہیا کرتی رہے

    جبر خفتن در میان رہزناں

    مرغ بے ہنگام کے یابد اماں

    خود کو مجبور سمجھنا، ڈاکوؤں کے درمیان سوجانا ہے

    بے وقت اذان دینے والا مرغ کب بچتا ہے ؟

    ور اشارتہاش را بینی زنی

    مرد پنداری و چوں بینی زنی

    اگر اس کے اشاروں پر تو ناک چڑھائے گا

    تو اپنے آپ کو مرد سمجھتا ہے، اور جب غور کریگا تو عورت ہے

    ایں قدر عقلے کہ داری گم شود

    سر کہ عقل از وے بپرد دم شود

    تو جس قدر عقل رکھتا ہے، وہ گم ہو جائیگی

    جس سر سے عقل اڑجائے وہ دم بنجاتا ہے

    زانکہ بے شکری بود شوم و شنار

    می برد بے شکر را در قعر نار

    چونکہ ناشکری، منحوس اور نامبارک ہوتی ہے

    ناشکرے کو جہنم کے گڑھےمیں لے جاتی ہے

    گر توکل می کنی در کار کن

    کسب کن پس تکیہ بر جبار کن

    اگر تو توکل کرتا ہے ، کاروبار میں کر

    کما، اور پھر اللہ پر بھروسہ کر

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے