تراب اب کر رقم رنگیں بیاں او
سنے جو خلق سارا داستاں او
اِتا وہ داستاں کہتا ہوں یاراں
ہوئے گا خلق سب سن اشک باراں
سنا ہوں گلشن آباد یک نگر تھا
وہاں ایک مہ جبیں گلرو کا گھر تھا
اتھی یوں پاک دامن پارسا نار
نماز پنج وقتاں ہور ذکر چار
خصم راضی، رضا مند سب قبیلہ
نجانی عورتوں کا مکر و حیلہ
جہاں آواز نامحرم کا آوے
وہ توبہ کرو ہاں سوں اٹ کے جاوے
کماں ابرو، نگہ خنجر، پلک تیر
ادر سیف دو دھارا زلف زنجیر
گیا تھا نوکری کو اس کا خاوند
اکیلی گھر میں تھی دلدار دلبند
ہوئے کئی دن کوئی شاتر نہ آیا
خبر بھی خیریت کوئی نہ لایا
پڑا اس نگر میں او گلبدن بار
کہیں مارے گیا یا ہے او بیمار
کہیں پھر دائی کو او یوں بلا کر
بلا ملاں کو دائی جلد جا کر
بہت دن سوں نہیں آئی خبر ہے
نہ جانے کیا سبب ان کے اوپر ہے
اور اب لگ نوکری کس کی کیے نئیں
جو گھر کی کچھ خبر ہرگز لیے نئیں
یا کئیں لشکر میں سپڑے ہیں رن میں
یا کئیں اٹکے ہیں شوقِ راگ و رنگ میں
یا کوئی سو کن نے دل ان کا بھلائی
یا کس کے جا ہوے ہیں گھر جوائی
مرے بن یک گھڑی رہتا نہیں تھا
میرے بن بات کیں کرتا نہیں تھا
اتا بھجا نہیں جھوٹی کتابت
کیا ہے جا کے شاید وہاں کی عورت
سنی یہ بات سودائی چلی بہار
بچاری نار کوں کرنے گرفتار
جہاں پڑتے تھے لڑکے بہوت سے مل
وہاں بیٹھا تھا ملا ایک فاضل
کری تسلیم جا کر اس کو دائی
حقیقت بول خط لکھنے بولائی
سنا سودائی سوں ملا نے یو بات
چلا لے کر قلم دوات سنگات
خبر بی بی کو دی آیا ہے ملا
کہی بی بی اسے گھر میں بلایاں!
اونے تب گھر میں گوشہ کر بلائی
بچھانا کر کے پردے کن بٹھائی
بٹھا پردے کنے ملاں بچارا
سنو بارے لگن کا یک نظارہ
پوچھا لے ہاتھ میں ملانے خانہ
حقیقت کیا لکھوں سو بول نامہ
دیکھا تو اور پریرو جھانکتی تھی
غرورِ حسن میں جیو مدمتی تھی
یکا یک دیکھ دیوانہ ہوا تب
لگا کہنے کہ بولو کیا لکھوں اب
کہی او نازنیں سب اپنا احوال
نہ سمجھی او ہوا سو دیکھ بے حال
حقیقت سب سنا بولی سو سن کر
کہا پھر بھی یہی سو کیا لکھوں کر
کہی بھی اوپری رو کر کے تکرار
دیکھو پھر کیا لکھوں بولا گرفتاری
کہی دوچار بار اس کے تئیں جب
سمجھ گئی دل میں دیوانہ ہے وہ تب
دیکھے تو کچھ بھی او پڑتا نہ لکھتا
چپی چپ کیا لکھوں کہہ کر بلکتا
قلم یک ہات اور یک ہات قرطاس
بٹھا حسرت زدہ پردے ہی کے پاس
کہی تب دائی کوئی غصہ میں آ کر
تو دیوانے کو کیوں لائی بلا کر
کہی تب دائی میں لائی تھی سانہ
اتا دِستا موا، جڑا دیوانہ
ہمارے شہر میں ہے او چہ نامی
بہوت عالم تو کرتا ہے غلام
موا سب فاضلاں میں او بڑا ہے
نہ جانو کیا سبب اس پر کھڑا ہے
موئی تپلٹ کی سن کر سب بھلائی
مونڈی کاٹے کو میں لکھنے بلائی
کہی تب دائی کو دے اس کو جانے
بہوت عالم میں ہے سیانے دوانے
کہی تب دائی، میاں تم بہار جاؤ
نکو چپ کیا لکھوں کاغل اچاؤ
یکا یک کیا ہوا میں تم پو واری
بسر کر عقل کاں گئی ہے تمہاری
بسر شملہ اوٹھے کملا کے ملا
رہا نہیں یاد تسبیح اور مصلا
قلم داوات اسی جاگے بسارا
اٹھا سو کیا لکھوں کرہانک مارا
چلیا او کیا لکھوں کرتا بچارا
لگا جب عشق کا سیف دودھارا
پڑیا عالم میں اس کا کیا لکھوں نام
رہا ہو گرد خاک کوے گلفام
سنے یو بات جو شاگرد سارے
ننگے پاوا نچہ دوڑے سب بچارے
دیکھے استاد کے تئیں کر قدمبوس
لگے ملنے کو سارے دستِ افسوس
کہ اے صاحبِ کرم فیاض عالم
ایتا کس پاس جانا درس کو ہم
او مکتب تجہ بغیر از سب ہے ویراں
ہمیں سارے غلاماں ہیں گے حیراں
کتاباں سب پراگندہ پڑے ہیں
ہمیں روتے ترے آگے کھڑے ہیں
ہوا سب شہر میں بھی یوں پکارا
کہ دیوانہ ہوا ملاں بیچارا
شہر کے دیکھ لڑکے کھیل پائے
بھی اس کا کیا لکھوں کرنام بھائے
جدھر دیکھے ادھر غل کیا لکھوں ہے
پرت کانپت یاروں کیا زبوں ہے
تراب اب بس کرو یہاں سے رکھو بات
چنچل سن کر کہی سو کیا کیا بات
سنی سو اس کو بھی آئے انجھو بھر
لگی رونے کو دائی سات سمندر
کہی دائی کو تو ہے دائی میری
تو میری ماں ہے میں بیٹی ہوں تیری
کبھی سُیں سوا سے میں جھانک دیکھی
ہمیں دونوں کی مل کر چار آنکھیں
تبھی سے رنگ میں شیدا کا پائی
دغا دی اور دغا میں آپ کھائی
کہاں لگ دل کے تئیں اپنے کروں گھٹ
بندیا ہے گھٹ میں پیو کے درد کا مٹ
رہی نیں سد میرے گھر کی تب سوں
ہوا عاشق منجے او دیکھ تب سوں