Font by Mehr Nastaliq Web

"پردیسی کی فریاد":اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

اختر علی گڑھی

"پردیسی کی فریاد":اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

اختر علی گڑھی

MORE BYاختر علی گڑھی

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    وہ دیس جہاں کی خاک بھی ہے آنکھوں میں لگانے کے قابل

    وہ دیس جہاں کا ہر ذرہ ہے ایک عبادت خانہ دل

    وہ میرے خیالوں کی جنت وہ میری امیدوں کا حاصل

    وہ میری مرادوں کا مرکز وہ میرے ارادوں کی منزل

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    وہ دیس جہاں طفلی کی بہاریں روشن ور قصاں گذری ہیں

    وہ دیس جہاں غم کی گھڑیاں صد رنگ بداماں گذری ہیں

    وہ دیس جہاں میری راتیں سرشار وغزلخواں گذری ہیں

    وہ دیس جہاں میری صبحیں مسرور ودرخشاں گذری ہیں

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    وہ دیس جہاں ندی کے کنارے پہروں کھیلا کرتا تھا

    کس شوق سے پانی کی لہروں کے رقص کو دیکھا کرتا تھا

    مہتاب سلانے آتا تھا خورشید جگایا کرتا تھا

    ہستی کے ستم سے ناواقف جینے کی تمنّا کرتا تھا

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    وہ دیس فضاؤں میں جس کی سرشار جوانی آئی تھی

    وہ دیس جہاں دل میں الفت کی پہلی کرن تھّرائی تھی

    وہ دیس جہاں اک شوخ نظر پیغامِ حرارت لائی تھی

    رگ رگ میں نہاں اک درد سا تھا اک چوٹ سی دل پر کھائی تھی

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    وہ دیس جہاں بیکار تھیں سب ہستی کی ستم پرورگھاتیں

    دلچسپ وہ باغوں کی سیریں دل کش وہ سہانی برساتیں

    گھنگور گھٹاؤں کا اٹھنا ساغر کی کھنک سر خوش باتیں

    اللہ کدھر پنہاں ہیں وہ دن اللہ کہاں ہیں وہ راتیں

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    ہاں کچھ تو سنا اے روحوں کو پیغام طرب دینے والی

    مانا کہ فضائے گیتی میں ہے کھیل دلوں کی پامالی

    مانا کہ زمانہ ہے یکسر انوارِ محبت سے خالی

    مانا کہ نہیں دنیا میں گراں یاروں پہ کسی کی بے حالی

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    لللہ بتا مجھ بیکس کو یاران وطن کیا بھول گئے

    پردیس کا عالم ہوتا ہے کس درجہ غم افزا بھول گئے

    مدت سے ہے اک آوارہ وطن محروم تمنا بھول گئے

    آتا ہوں کسی کو یاد بھی میں سب مجھ کو وہاں یا بھول گئے

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    کہنا تمہارے ساتھی کو دنیا کے ستم نے لوٹ لیا

    پردیس میں پیہم ناکامی کے رنج والم نے لوٹ لیا

    ہستی کی متاعِ عشرت کو بے مہریٔ غم نے لوٹ لیا

    امید کو نا امیدی کے احساسِ اتم نے لوٹ لیا

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    گھنگھور گھٹائیں آتی ہیں وہ منہ اشکوں سے دھوتا ہے

    غنچے تبسم ہوتے ہیں وہ سر دھنتا جاں کھوتا ہے

    تم محوِ فغاں پاؤ گے اسے جب ذرہ ذرہ سوتا ہے

    روتوں کو ہنساتاتھا جو کبھی دن رات پڑا اب روتا ہے

    اے موجِ صبا کچھ حال سنا اس دیس کے رہنے والوں کا

    مأخذ :
    • کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 28)
    • Author : عرفان عباسی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے