Font by Mehr Nastaliq Web

نظم: دھوکا ہے خیالِ آزادی پیغام زبانی جب تک ہے

شیروں کا سر مغرور یہاں روباہ کہن سے نیچا ہے

زندوں کا لباس تن بھی یہاں مردوں کے کفن سے نیچا ہے

کہسار ہمالہ کا سر بھی توہین وطن سے نیچا ہے

اک داغ ہے یہ تاریخ ستم دنیا کی کہانی جب تک ہے

آزاد شہیدوں سے میں نے پھر خون کے رشتے جوڑے ہیں

میدان سنان وخنجر میں کچھ دل کے پھھولے پھوٹے ہیں

افسردہ رگوں میں غیرت کی احساس کے شعلے توڑے ہیں

ٹھنڈا نہیں ہوگا میرا لہو گنگا کی روانی جب تک ہے

یہ خون جو میرے تن میں ہے طوفان جہاں بن جائے گا

قوت کے پہاڑوں کے حق میں شعلوں کا مکاں بن جائے گا

آنکھوں میں اتر آئے گا کبھی اور اشک رواں بن جائے گا

جم کر نہ رہے گا پلکوں پر اس خون میں پانی جب تک ہے

مینا جو قفس کی قید میں ہے اڑنے کے لئے پر تولے گی

جس عضو پہ نوک نشتر کو رکھ دیں گے رگِ جاں کھولے گی

محظوظ ہو یا بیزار کوئی ہر زندہ حقیقت بولے گی

خاموش نہ ہوگی میری زباں شوریدہ بیانی جب تک ہے

تہذیب کی صہبا کی بوتل اک دیدۂ غم رہ جائے گی

مذہب کی نوائے دلکش بھی اک آہ الم رہ جائے گی

عالم کی سیاست ٹکرا کر اک جنگ بہم رہ جائے گی

دنیا میں نہ ہوگا امن وسکوں مفلس کی جوانی جب تک ہے

مأخذ :
  • کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلداٹھارہویں (Pg. 311)
  • Author : عرفان عباسی

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے