خود شناس ہونے کو ہے ہر ایک مذہب نے کہا
خود شناس ہونے کو ہے ہر ایک مذہب نے کہا
اختلاف اس امر میں ہرگز نہیں آ کر پڑا
من عرف کا حکم پیغمبر نے خود فرما دیا
خاص آتم گیان کا ہے ذکر گیتا میں ہوا
نود آئی سلف کا انگریزی میں بھی فرمان ہے
جادۂ راہِ حقیقت آتما کا گیان ہے
خود شناسی کے لیے تو علم ہی درکار ہے
علم ہی سے خود کو جو جانے وہی ہشیار ہے
خود شناسی کا مگر دیکھا عجب بیوپار ہے
لاکھوں پاکھنڈوں میں جس کا ہو رہا اظہار ہے
خود کی جانب خود رجوع ہونا یہ اتنا کام ہے
خود شناسی کافقط اس سے ہی تو انجام ہے
علم ہی جس میں نہ ہو کیا خود شناسی وہ کرے
آنکھ ہی حاصل نہ ہو تو کیا نظر اس کو پڑے
غیر ہتھیار اب بھلا میداں میں کوئی کیا لڑے
پاؤں جس کے کٹ گیے کب دوڑنے میں وہ بڑھے
گل نہ ہو جس شاخ میں خوشبو کہاں سے لائے وہ
جو وہاں رکھا نہ ہو نعمت کہاں سے کھائے وہ
جاہلوں نے خلق کو ہے دھوکا دینے کے لیے
قاعدے ہیں خود شناسی کے بہت پیدا کیے
بعض کپڑے پھینک کر بالکل برہنہ ہو گیے
بعض نے تن پر رما کر خاک ہیں حلوے دیے
بعض بالوں کو بڑھا کر ہو گیے خاصے ولی
پائی بالوں میں انہوں نے خود شناسی کی گلی
بعض نے ہے چارا برو کا صفایا کر دیا
خود شناسی کا سبق حجام صاحب سے لیا
بعض نے چورا سی دھونی سے ہے یہ ثابت کیا
یعنی اُپلے تاپنےسے گیان آتم کا ہوا
بعض نے کچھ چٹکلے اور شعبدے پا کر مگر
ایک عالم کشف سے ہی کر دیا زیر و زبر
بعض الٹے مثل چمگادڑ لٹکتے ہیں سدا
یا وہ ہو کے مست دکھلاتے ہیں مستانہ ادا
بعض بے پرواہ دنیا سے ہوئے یہ بے ریا
بھاگتے لوگوں سے ہیں یہ بانی مکر و دغا
پروہ باطن میں تو ہیں محتاج زر محتاجِ ناں
ایسے ہی شہدوں کی پوجا ہے جہاں میں بیگماں
بعض چھوچا سے دکھاتے ہیں کرامت کے نشاں
یعنی منتر اور تنتر اور چلہ راز داں
بعض تو ہیں کیمیاگر بن کے سنیاسی یہاں
لوٹتے دنیا کو ہیں وہ صاحبِ اکسیر ہاں
کیمیا گر ہیں تو پھر کیوں مانگتے ہیں اور سے
لیک جو دانا ہیں وہ دیکھیں گے اس کو غور سے
بعض بھنگی اور چرسی اور شرابی مست وار
پھرتے ہیں بن کے قلندر وہ یہاں لیل و نہار
خود شناسی کی جگہ کرتے ہیں ایسے کاروبار
خود شناسی کا انہوں نے کر لیا بس روزگار
بعض مالا جپتے ہیں اور بعض جنگل میں سدا
نعرہ ہائے رام واللہ ہو کی کرتے ہیں صدا
بعض آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں در جہاں
بعض سنتے ہی نہیں ہرگز کسی کی داستاں
بعض ہو کے عالم و فاضل بہت رنگیں بیاں
پر حقیقت کا نہیں دیتے ہیں وہ کچھ بھی نشاں
جنت و دوزخ کی تو تفسیر سے آگاہ ہیں
پر حقیقت اپنی سے بالکل ہوئے گمراہ ہیں
غور کرنا اس امر میں اس گھڑی اے نامدار
خود شناسی ہے کہاں اور ہیں کہاں یہ کاروبار
خود شناسی سے غرض تفتیش خود کی ہے بدار
ایسے کاموں سے اسے نسبت کہاں نیکو شعار
یہ تو سب پاکھنڈ سے گمراہ کر نےوالے ہیں
یہ کہاں مخلوق اور اللہ سے ڈرنے والے ہیں
خود شناسی گر برہنہ ہونے سے ہوتی اگر
کل برہنہ جانور ہو جاتے عارف با خبر
راکھ ہی پر خود شناسی کا اگر ہوتا اثر
کل گدھے ہو جاتے عارف اپنی ہستی سے مگر
بال بڑھ جانے سے ملتا آتما کا گیان جو
سب سے بڑھ کر گیان ہوتا پھر تو بیشک بھیڑ کو
سر منڈانے سے اگر ملتا خدا اے باتمیز
دو ہی پیسے سے یہ تھا حجام سے حاصل عزیز
گر نہانے سے وہ مل جاتی کہیں گم گشتہ چیز
مچھلی و مینڈھک و پاتل ہوتے عارف اس سے نیز
دھونی تاپے سے اگر ملتی ہمیں خود کی خبر
جتنے باورچی ہیں ہوتے عارف و کامل مگر
شعبدہ جادو کرامت کو تعلق اس سے کیا
علم سے اور عشق سے ہے خود شناسی کا مزا
شعبدہ جادو کرامت سے تو ہے یہ مدعا
یعنی جھک جائے ہمارے سامنے خلق خدا
طالب دنیا ہے یہ مکار ہے غدار ہے
طالب مولا نہیں یہ طالبِ مردار ہے
شعبدہ ہے وہ جو دکھلاتے ہیں اس کو بے محل
کوئی بھی سائل نہیں اور خود دکھاتے ہیں عمل
بازیگر کی ڈگڈگی یہ تو ہوئی ثابت بدل
خلق جمع کرنے کو جو کہ بجے ہے در اصل
ہے کرامت تو فقط تائید یزدانی کا نام
وہ بھی تب جب کے کہیں تائید کا آ جائے کام
الٹا لٹکے سے اگر یہ آتما آتا نظر
سارے چمگاڈر یہ ہوتے عارف و کامل مگر
کر کے نفرت بھاگتا لوگوں سے جو رکھتا اثر
کیوں یہ جنگل چھوڑ کر آتا بھلا اندر نگر
کون منت کر کے اس کو شہر میں لایا بھلا
اب جو نفرت کر کے ہے یہ منھ چھپاتا بارہا
آتما کا گر عبادت سے ہمیں ملتا پتہ
پھر کبھی پڑتی نہ ہم کو حاجتِ راہِ نما
ہے عبادت میں فقط اک نام کا رٹنا سدا
خود شناسی کا نہیں کوسوں پتہ اُس سے رسا
خوش شناسی سے غرض خود کو ہی ہے پہچاننا
یعنی تحقیقات سے ہی آتما کو جاننا
بند کر کے آنکھ جو کہ بیٹھ جاتے ہیں یہاں
لوگ اُن پر عارف و کامل کا کرتے ہیں گماں
اندھے ہونے سے جو ملتا ہم کو وہ ربِ جہاں
سارے اندھے ہوتے اس سے عارف کامل میاں
صرف نحو اور دوسرے علموں سے جو ملتا خدا
آج ایم اے اور بی اے ہوتے سب کے رہنما
نشہ پینے سے اگر ملتا نشان اس یار کا
پھر تو آئینہ ہی ہوتا دل ہر اک میخوار کا
یہ تو سب پاکھنڈ ہے اور کام ہے مکار کا
انتظار اُن کو ہمیشہ ہے کسی زر دار کا
غیر متعلق ہیں یہ سب عشق کے اور پیار کے
پیار سے پاتے ہیں عاشق جلوے اُس دلدار کے
عشق میں یہ اثر ہوتا ہے سدا اندر خیال
غیر دلبر اور کو دے ہے بھلا بہرِ وصال
غم رقیبوں کا بھی ہے اس میں ہمیشہ خوش خصال
سدِّرہ اس کے جو ہوتے ہیں بصد رنج و ملال
عشق میں پیغامبر کی بھی تو پڑتی ہے غرض
جس کی کوشش سے ادا ہو جائے الفت کا فرض
بس اسی صورت سے ہوگا آتما کا جاننا
یعنی اس بے مثل کا ہر مثل میں پہچاننا
غیر اس کے اور گمراہی کی صورت ماننا
خیمۂ پاکھنڈ کو لازم نہیں ہے تاننا
با خدا یہی وہ صورت ہے خدا جس سے ملے
عشق کی چابی سے دروازہ خدا کا ہے کھلے
فائدہ جو خود شناسی کا ہے، سن اس کا بیاں
ایک دن جانا ہے ہم کو اس جہاں سے بیگماں
اس گھڑی اپنی طبیعت ہوگی با آہ و فغاں
کوئی بھی صورت نہیں پھر اس جگہ بہر اماں
مال و دولت اور حکومت سب یہاں بیکار ہے
بلکہ ان چیزوں سے پیدا ہوگیا آزار ہے
اس گھڑی اس ناز پر ور دہ طبیعت کے لیے
کون سے ہیں دوست اور احباب جو پیدا کیے
یاں تو سب کچھ ملتا ہی تھا جب تلک کہ ہم جیے
آخرش کو ساتھ تفریح کے لیے کس نے دیے
آتما کے گیان کو گر سے اگر تو پائے گا
مثل ارجن پھر تو تو اس سے نہیں گھبرائے گا
غیر رنگت ہے تو بالکل جس پہ رنگت آئے ہے
کانچ کی رنگت ہے جو کہ دھوپ میں یہ پائے ہے
نیلی وپیلی و کالی سرخ جو دکھلائے ہے
آفتاب ہر کانچ کے ٹکڑے میں وہ ہر جائے ہے
کانچ ٹوٹے تو نہیں ہے دھوپ کو اُس میں زوال
مہر تاباں میں ہمیشہ دھوپ کو تو ہے کمال
مصحفِ دل کا سبق جو دے وہ ہے صاحبِ کمال
ہو بہو دکھلائے دل کو لا تعین کا جمال
دیکھ کر جس کو یقیں ہو جاوے حاصل حق کے لال
جب فقیروں سے ملو اُس کی ہی رکھنا دیکھ بھال
ایسے لوگوں سے مرا دیں دل کی سب بر آئیں گی
جو کہ شاخیں خشک ہیں وہ بھی ثمر لے آئیں گی
جو خدا والوں سے ملتا ہے خدا اس سے ملے
پر خدا کے واسطے ہی قصد ملنے کا کرے
خالصاً للہ اگر اس راہ میں کوئی پڑے
پھل نہ چھائے کچھ فقیروں سے سدا ان سے ڈرے
خود بخود پھل دے گا مولیٰ جس کا یہ دربار ہے
خیر خواہ نوکر سے آقا کو ہمیشہ پیار ہے
عاشق صادق ہے وہ جو اس طرف مائل رہے
ڈھونگ اور پاکھنڈ کا ہرگز نہ وہ قائل رہے
ہر امر میں وہ حقیقت حق کا ہی سائل رہے
زنگ دوئی اُس کے دل سے ہر گھڑی زائل رہے
جن کی صحبت سے عیاں حق کا ہر اک اسرار ہو
ایسا ہی درویش درویشوں میں تو سردار ہو
علم ہی کے معنی ہیں بس جاننا پہچاننا
ہاں وظیفوں کے نہ معنی جاننے کو ماننا
کب وظیفوں سے تجھے آ جائے اپنا جاننا
علم کے آئینے میں کر آمنا اور سامنا
باربار اک اسم کو کہنا وظیفہ ہے یہی
خود شناسی کا بھلا کیوں کر طریقہ ہے یہی
رام و اللہ کا وظیفہ گر کرو لیل و نہار
رام واللہ کو ہی جانا بس یہ ہے ظاہر بدار
خود کو تو اُس سے نہ پہچانا یہ ہے سچا شعار
کر دیا ہم نے حقیقی راستہ اب آشکار
وہ ہی چھ درشن ہیں جس جا آتما کا گیان ہو
منتر و جنتریہ سب پاکھنڈ اور گیان ہو
پریم جس جا پر ملے اور گیان کا پرکاش ہو
آتما کا ہو اجالا اور دوئی کا ناش ہو
ہستی موہوم کی ہستی کا پردہ فاش ہو
غیر کی ہستی کی نہ پھر اُس کو کچھ تالاش ہو
ایسے ہی دربار سے محسنؔ مرادیں پاؤ گے
ہے یقیں خالی نہ اس دربار سے تم جاؤ گے
- کتاب : دیوانِ محسن (Pg. 68)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.