" عہد فاروقی کا ایک زریں واقعہ":بندھا روز روشن کا رخت سفر
بندھا روز روشن کا رخت سفر
ہوا شب کی تاریکیوں کا گذر
فضا پر سکوت اور عالم خموش
ہو ختم دن کی جوانی کا جوش
اندھیرا تھا اور نیم شب کا سماں
ہراک شے تھی مصروف خواب گراں
مگر ایک مرد ستوہ صفات
کہ جس سے لرزتی تھی کل کائنات
وہ فاروق اعظم وہ گیتی وقار
وہ جان خلائق وہ شب زندہ دار
وہ دنیا ئے کیں جس سے زیروزبر
وہ ملک خلافت کے عالی گہر
وہ کی جس نے قطع رگ ظلم وکیں
وہ ایماں ہوا جس کے زیر نگیں
چلے گشت کرنے خلافت مآب
وہ جن کے ثنا خواں شہ بو تراب
تھا اس درجہ حفظ عدالت کا پاس
پہن کر نکلتے تھے خفیہ لباس
سنی ان کے کانوں نے ہنگام گشت
یہ آواز ہو جس سے ایماں شکست
ہو مرغ حیا صید اک تیر میں
ملا آب تازہ ذرا شیر میں
رکے سن کے یہ صاحب عدل وداد
کہ اس گفتگو میں تھی بوئے فساد
کہاں ماں سے بیٹی نے کچھ خوف کر
کہیں سن نہ پائیں جناب عمر
کہاں ماں نے بے بس ہیں تاریکیاں
کہیں شکوہ کرتی ہیں خاموشیاں
یہ کیا بام ودر کاشف راز ہیں
یہ کیا چاند تارے بھی غماز ہیں
کہا سن کے بیٹی نے یہ بے گماں
دل اپنا مگر ہے ملامت کناں
گوارا نہیں دل میں آئے فتور
خدا رکھے اس نفع خوری سے دور
دم صبح آؤ تو عقدہ کھلے
نشاں اس کےگھر پر بنا کے چلے
یہ تھی فکر ہے کون نیکو سیر
نہ اس رات بسترپہ سوئے عمر
تکلم میں تھا قلب مومن کا سوز
عجب گفتگو تھی وہ ایماں فروز
یہی شان ہے حق کے معمار کی
ضرورت ہے ایسے ہی کردار کی
کسی طرح آخر ہوئی شب بسر
پیام طرب لے کے آئی سحر
دم صبح پہنچے شہ عز وشاں
جہاں پر بنایا تھا شب میں نشاں
ہوئی سن کے خاتون خامہ نہال
کہ یہ کہہ رہاتھا عمر کا جلال
مکاں کس کا ہے اور مکیں کون ہے
لیے دل میں شمع یقیں کون ہے
برائی سے کس نے کیا اجتباب
ملایا نہیں شیر میں کس نے آب
ضعیفہ نے کی سب حقیقت عیاں
سنائی شب رفتہ کی داستاں
فقط میں ہوں یاں اور بیٹی میری
لیے سر پہ بارِ شکم پروری
یہ ناکتخدا دختر نیک ذات
مری نیتوں پر کڑھی کل کی رات
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد گیارہویں (Pg. 128)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.