Sufinama

جوگی کا روپ

نظیر اکبرآبادی

جوگی کا روپ

نظیر اکبرآبادی

MORE BYنظیر اکبرآبادی

    میاں میں کیا کہوں اک روز اپنے دل کی حرانی

    پڑی جب ہجر کی آکر مرے دل پر پریشانی

    نہ خوش آیا مجھے گلشن نہ آبادی نہ ویرانی

    اٹھا کر ہاتھ جی سے اور یہ دل میں مصلحت ٹھانی

    کسی صورت سے چل کر دیکھیے کیسا ہے وہ جانی

    پھر آیا سوچ یہ دل میں اگر یوں ہی چلے چلیے

    جو وہ پہچان جاوے واں تو ناحق مفت میں مرے

    مگر ایسا کوئی بہروپیے کو سوانگ اب کیجیے

    کہ اس کو دیکھیے بھی خوب اور جی کو بھی رکھ لیجیے

    جہاں میں زندگانی بھی میاں مشکل ہے پھر پانی

    کہ کہتا تھا میں جی میں عشق نے یہ بات لا ڈالی

    منگا تھوڑا سا گیرو اور وہیں کفنی رنگا ڈالی

    اٹھا سندر گلے کے بیچ سیلی برملا ڈالی

    لگا منہ سے بھبوت اور شکل جوگی کی بنا ڈالی

    ہوا سر پاؤں سے ادھوت جوگی جوگ کا گیانی

    بنا بالوں کا انڈ کھول بال اور ہو کے متوالا

    چبا آکھ اور دھتورا کر دیا آنکھوں کو گل لالا

    اٹھا تو بنی کو اور کاندھے کے اوپر رکھ مرگ چھالا

    پھرا ہاتھوں میں سمرن اور گلے میں ڈال کر مالا

    چلا پڑھتا ہوا گر کا سبدا اور ناتھ کی بانی

    جب آیا یار کے در پر تو واں سنکھ آن کر پھونکا

    صدا سنتے ہی وہ محبوب گھبرا کر نکل آیا

    و لیکن دیکھتے ہی مجھ کو اس عیار نے تاڑا

    پکار آؤ جوگی جی بڑی کی آج تو کرپا

    جو کچھ درکار ہو لیجے منگا دھونی امل پانی

    مرا دل خوش ہوا عنی مجھے اس نے نہیں جانا

    اور اس عیار نے پہلے یارو مجھ کو پہچانا

    کہا جوگی جی کس نگری میں ہے اب آپ کو جانا

    کبھی آگے تھے آئے یا ابھی اس جا ہوا آنا

    لگا عیارگی سے جان کر دینے انا کانی

    پھر اس میں کھلکھلا کر ہنس دیا اور دیکھ کر مجھ کو

    کہا جوگی جی اب تم ٹک ہمارے پاس آ بیٹھو

    ذرا کپڑے اتارو جوگ کے اور منہ کو دھو ڈالو

    بھبوت ایسی ہی ملنی ہے تو پھر منہ سے لگا لیجو

    یہ کہ کر اور وہیں لا رکھ دیا آگے مرے پانی

    جو ہیں پانی وہ منہ دھونے کو اس کافر نے رکھوایا

    وہیں دھڑکا مرا دل اور پکارا لو غضب آیا

    کہاں کا ہو کے جوگی تو نے پیچھے جھاڑ لگوایا

    مجھے آتے ہی کھویا سر بھی اپنا مفت کٹوایا

    بھلا کب مجھ کو چھوڑے گا وہ قاتل دشمن جانی

    یہ کہتا تھا میں جی میں اس میں قاتل کھینچ کر تیغا

    پکارا کیوں بے جوگی تو نے اب تک منہ نہیں دھویا

    نہ تھا میرے تو دم میں دم و لیکن ہوش جب آیا

    زمیں پر لوٹ سب کچھ پھینک ایسا واں سے دھر بھاگا

    کہ جیسے چھوٹ کر بھاگے کوئی وحشی بیابانی

    پکارا دیکھیو جانے نہ پاوے دوڑ یو لیجو

    و لیکن میں جو بھاگا پھر کہاں پاوے کوئی مجھ کو

    لگا کہنے کبھی آنا ادھر کو پھر بھی جوگی ہو

    سمجھنا ہے کسی دن سوانگ تو نے ہیں کیے جو جو

    بھلا بے سب تری شوخی شرارت ہم نے پہچانی

    نظیرؔ اس دم مجھے بھاگنے کی گھات یاد آئی

    چھٹا ظالم کے پھندے سے دوبارہ زندگی پائی

    جہاں لے جا کے میرے بھی خبر جس جس نے پہنچائی

    ہر اک غم خوار نے مجھ سے کہا آ کر کے اے بھائی

    خدا کے واسطے ایسی نہ کیجو پھر تو نادانی

    مأخذ :
    • کتاب : کلیات نظیر اکبرآبادی، مرتبہ عبدالباری آسی (Pg. 734)
    • Author : نظیرؔ اکبرآبادی
    • مطبع : منشی نولکشور، لکھنؤ، (1951)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے