جوگی کا روپ
میاں میں کیا کہوں اک روز اپنے دل کی حرانی
پڑی جب ہجر کی آکر مرے دل پر پریشانی
نہ خوش آیا مجھے گلشن نہ آبادی نہ ویرانی
اٹھا کر ہاتھ جی سے اور یہ دل میں مصلحت ٹھانی
کسی صورت سے چل کر دیکھیے کیسا ہے وہ جانی
پھر آیا سوچ یہ دل میں اگر یوں ہی چلے چلیے
جو وہ پہچان جاوے واں تو ناحق مفت میں مرے
مگر ایسا کوئی بہروپیے کو سوانگ اب کیجیے
کہ اس کو دیکھیے بھی خوب اور جی کو بھی رکھ لیجیے
جہاں میں زندگانی بھی میاں مشکل ہے پھر پانی
کہ کہتا تھا میں جی میں عشق نے یہ بات لا ڈالی
منگا تھوڑا سا گیرو اور وہیں کفنی رنگا ڈالی
اٹھا سندر گلے کے بیچ سیلی برملا ڈالی
لگا منہ سے بھبوت اور شکل جوگی کی بنا ڈالی
ہوا سر پاؤں سے ادھوت جوگی جوگ کا گیانی
بنا بالوں کا انڈ کھول بال اور ہو کے متوالا
چبا آکھ اور دھتورا کر دیا آنکھوں کو گل لالا
اٹھا تو بنی کو اور کاندھے کے اوپر رکھ مرگ چھالا
پھرا ہاتھوں میں سمرن اور گلے میں ڈال کر مالا
چلا پڑھتا ہوا گر کا سبدا اور ناتھ کی بانی
جب آیا یار کے در پر تو واں سنکھ آن کر پھونکا
صدا سنتے ہی وہ محبوب گھبرا کر نکل آیا
و لیکن دیکھتے ہی مجھ کو اس عیار نے تاڑا
پکار آؤ جوگی جی بڑی کی آج تو کرپا
جو کچھ درکار ہو لیجے منگا دھونی امل پانی
مرا دل خوش ہوا عنی مجھے اس نے نہیں جانا
اور اس عیار نے پہلے یارو مجھ کو پہچانا
کہا جوگی جی کس نگری میں ہے اب آپ کو جانا
کبھی آگے تھے آئے یا ابھی اس جا ہوا آنا
لگا عیارگی سے جان کر دینے انا کانی
پھر اس میں کھلکھلا کر ہنس دیا اور دیکھ کر مجھ کو
کہا جوگی جی اب تم ٹک ہمارے پاس آ بیٹھو
ذرا کپڑے اتارو جوگ کے اور منہ کو دھو ڈالو
بھبوت ایسی ہی ملنی ہے تو پھر منہ سے لگا لیجو
یہ کہ کر اور وہیں لا رکھ دیا آگے مرے پانی
جو ہیں پانی وہ منہ دھونے کو اس کافر نے رکھوایا
وہیں دھڑکا مرا دل اور پکارا لو غضب آیا
کہاں کا ہو کے جوگی تو نے پیچھے جھاڑ لگوایا
مجھے آتے ہی کھویا سر بھی اپنا مفت کٹوایا
بھلا کب مجھ کو چھوڑے گا وہ قاتل دشمن جانی
یہ کہتا تھا میں جی میں اس میں قاتل کھینچ کر تیغا
پکارا کیوں بے جوگی تو نے اب تک منہ نہیں دھویا
نہ تھا میرے تو دم میں دم و لیکن ہوش جب آیا
زمیں پر لوٹ سب کچھ پھینک ایسا واں سے دھر بھاگا
کہ جیسے چھوٹ کر بھاگے کوئی وحشی بیابانی
پکارا دیکھیو جانے نہ پاوے دوڑ یو لیجو
و لیکن میں جو بھاگا پھر کہاں پاوے کوئی مجھ کو
لگا کہنے کبھی آنا ادھر کو پھر بھی جوگی ہو
سمجھنا ہے کسی دن سوانگ تو نے ہیں کیے جو جو
بھلا بے سب تری شوخی شرارت ہم نے پہچانی
نظیرؔ اس دم مجھے بھاگنے کی گھات یاد آئی
چھٹا ظالم کے پھندے سے دوبارہ زندگی پائی
جہاں لے جا کے میرے بھی خبر جس جس نے پہنچائی
ہر اک غم خوار نے مجھ سے کہا آ کر کے اے بھائی
خدا کے واسطے ایسی نہ کیجو پھر تو نادانی
- کتاب : کلیات نظیر اکبرآبادی، مرتبہ عبدالباری آسی (Pg. 734)
- Author : نظیرؔ اکبرآبادی
- مطبع : منشی نولکشور، لکھنؤ، (1951)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.