داستانِ عشق و دل کی شورشیں
دلچسپ معلومات
پیہم کہانی المعروف بہ فسانۂ عشق۔ حضرت سید دوست محمد ابوالعُلائی برہان پوری کی ہندی زبان میں کہا گیا معروف دوہا ’’پیہم کہانی‘‘ پر نثارؔ اکبرآبادی کی نظم۔
داستانِ عشق و دل کی شورشیں
گومگو کی بات ہے کیوں کر کہیں
ہم نشیں آو سنائیں ہم تمہیں
جستجوئے یار نے کھویا ہمیں
پیہم کہانی کہت ہوں سنو سکھی تم آئے
پیٹھ ڈھونڈن کو ہوں گئی آئی آپ گنوائے
زہر ہیں اس عشق کی بات جناب
آپ لانے کے نہیں سننے کی تاب
اس نے مارے ہیں ہزاروں شیخ و شاب
اور لاکھوں کو کیا خانہ خراب
پیم کہانی بس بھری مت سنیو کوو آئے
باتن باتن بس جھرے دیکھت ہی گھر جائے
تنگ ہے یہ کوئے عشقِ راہزن
ہے گذر جز یار کس کا جانِ من
چھوڑ کر سب دین و ایماں جان و تن
کوئی جائے تو ملے وہ پُرفتن
پیم گلی اس سانکری پیہ بن کچھ نہ سمائے
تن من چھوڑ جب آئے تو پیہ پایا جائے
کوچۂ الفت میں ہم رکھتے ہیں گام
ہوش کیا شئے ہے کہاں کی عقل خام
رنگ بگڑا ہو گیے گھل کر تمام
صورتِ آب و نمک اے نیک نام
پیم نگر مون آئے کے سدھ بدھ رہوں سون کون
سدھ بدھ یوں گھل جات ہے جوں پانی میں بون
عشق کے کوچے میں آ کر ہم نشیں
دل ہوا رخصت علی جانِ حزیں
چین اب مجھ کو بجز اس کے نہیں
کر بیان کچھ ذکرِ یارِ نازنیں
پیم نگر میں آئے کے جیور انکسا جائے
اری سکھی کچھ پیہ کی بات کہو ٹک آئے
سخت مشکل عشق کی ہے داستاں
کس کا منہ ہے جو کرے اس کا بیاں
گنگ ہی وقتِ سخن منہ میں زباں
دم خفا ہوتا ہے گھبراتی ہے جاں
پیم کہانی کٹھن ہے کہے کون اٹھ آئے
بات کہی جیولیت ہی مکھ پکڑت ہی دھائے
ہے ہمیں سے رنج و غم درد و بلا
ہم نہ تھے جب غم الم کچھ بھی نہ تھا
یا الٰہی اپنی ہستی کو مٹا
تا یہ سب مٹ جائے جھگڑا عشق کا
موسر دکھ موسون پر یو جو میں نانھ تو نانھ
سائیں موہ اٹھائے لے جو موہ ناہیں نانھ
شکر کی جائے مٹے شادی و غم
فکرِ دنیا ہے نہ عقبیٰ کا الم
نیستی ہستی ہوئی یک جا بہم
جیسے جب تھے ہو گیے ویسے ہی ہم
بھلا ہوا ہر بیری سرکی گئی بلائے
جیسی تھی تیسی بھئی اب کچھ کہی نجائے
آہ جو سر پر پڑی میرے بلا
ہو کوئی دشمن نہ اس میں مبتلا
یار کا کس سے کروں جا کر گلا
سم قاتل دے ہے شربت میں ملا
جو دوکھرا موہ سر پر یوسو گاہو کی نانھ
کبھو پلاوے پیم رس کبھو کہ بس چھر مانھ
بہے بہت دشوار ذکر عشق یار
آ نہیں سکتا بیان میں زنہار
ہاں مگر کچھ عاشق سینہ فگار
دل ہی دل میں کرتا رہتا ہے شمار
اکتھ کتھا ہے پیم کی کہے بنت کچھ نانھ
جا تن لاگے نیہرا سو بوجھی من مانھ
اہلِ دل جویائے عشق نازنیں
جاہلوں کو اس کی کچھ پروا نہیں
سیر چاہے روغنی اے پاک دیں
اور بھوکا طالب نان جویں
چا ترچا ہن راگ گن مورکھ ات تر سانھ
بھوگی مانگے چوپڑی روکھی روکھا کھانہ
للہ الحمد آ گیا خطِ نگار
کیوں نہ دل اُمگے خوشی سے بار بار
تنگ ہو ٹوٹا گلے کا اپنے ہار
پھنس گئی تن میں قبائے زر نگار
پانی آئی پیھ کی چھاتی اُمگی جائے
مالا ٹوٹی انگ مون چولی تن نہ سمائے
عشق کا چرچا نہیں اے دل جہاں
آگ لگ جائے مٹے اس کا نشاں
جو نہیں مصروف ذکر جانِ جاں
لال ہو جائے الٰہی وہ زباں
آگ لگو وا دیس رے بیج پروتھ ٹھاون
جہاں نہ چرچا نیھ گا لیھ نہ پیھ کا ناون
عشق جس دن سے ہوا اس یار کا
شرم سے آتی ہے اب مجھ کو حیا
باولا سا خاک سرپر ڈالتا
دل گرفتہ پھر رہا ہوں جابجا
لاج بھاج موسون گئی جادن لاگونیھ
بوری ہوں دوری پھرون سرموڈارین کیھ
پھانس کچھ ایسی چبھی ہے عشق کی
جان و دل میں پڑ گئی ہے کھل بلی
آگ وہ سینے کے اندر ہے لگی
گوشت ہڈی جسم میں سب جل گئی
تن من مون گھل بل پڑی چبھی برہ کی پھانس
ہاڑ مانس دوو گلے دھائے چلے ہے سانس
اے دلِ ناداں بتا تو ماجرا
کون ہے کس پر ہوا تو مبتلا
بیخود و دیوانہ کیوں ہے کیا ہو
سحر یہ کس کی نگاہوں نے کیا
اے من گھلے باورِے بون پوچھت ہوں توہ
کن برھن ابتو کیوکھ کن کھویو موہ
اے دل وحشی یہ کیا آفت پڑی
کون سی سر پر بلا نازل ہوئی
رات دن کیوں بیقراری ہے تری
بوٹیاں کیوں کاٹتا ہے ہر گھڑی
اے بیراگی جیورے کہا لگو توہِ آئے
رین و نابیکل رہی اپنا ماس تو کھائے
عشق ہو کر شیر دل میں آ گیا
جان مضطر کو مری تڑپا گیا
جب سراپا پر تصرف پا گیا
غیر یار آیا نظر جو کھا گیا
ناہر پیھ کو نیھرا من مون بیٹھا آئے
باہر بھیتر پیوبن جو پاوے سوکھائے
عشق کا ہی جوش دل میں کیا کروں
ہم نفس جاؤں کہاں کس سے کہوں
نام سے اس کے نہ واقف گھر سے ہوں
ہے یہ بہتر جستجو میں جان دوں
جور کرت ہے نیہرا سکھی کہو کت جاؤں
نانون نہ جانوں گانو کا جہان سجن کوٹھانوں
کس پہ دل آیا ہے کیوں ناشاد ہے
کچھ نہیں کھلتا یہ کیا افتاد ہے
منتیں ہیں نالہ و فریاد ہے
وہ نہیں آتا ہے جس کی یاد ہے
نا جانوں یہ جیورا کا سون لاگیو جائے
موہن ٹک آوت نہیں رہی ہوں ہاہا کھائے
ہوشیار اے عاشقِ شوریدہ حال
خام و پختہ سے اٹھا اپنا خیال
مفت میں جان کو ہلاکت میں نہ ڈال
یار کا قبضے میں آنا ہے محال
سن ری نیہی باوری کاچی پا کی چھوڑ
وا کون کیسے پائے جاسون چلے نہ جور
طرف دل لے جاؤں کیوں کر جان من
لوٹنا ہے راہ نفس راہزن
بے حیا بے شرم ہے یہ بد چلن
ہو رہا ہے دودھ پی پی کر مگن
لے کیوں جاؤں مٹکیا ساری مارک روکو آئے
تنک لاج نہیں بابنواری گئورس لیت چھٹا
بوجھ بھاری سر پہ ہے منزل کڑی
کھینچتا ہے ہاتھ جاناں ہر گھڑی
دست ہے سنسان آفت ہے بڑی
چھن گئی پونجی مصیبت آ پڑی
لے کویں جاؤں گگریا بھاری موہن پکرت بانھ
دہی دودھ سب لیھ کے کھینچت ہے بن مانھ
کس لیے ہے آج شادی کا وفور
کیوں جہاں ہے مائل عیش و سرور
کیوں تجلی کا ہے ہر جانب ظہور
دل پکارا یار آئے گا ضرور
چھتیاں آئیں امنگ کے انگیا چھوٹی جائے
من میر و ایسین کہے جو موہن نکسے آئے
کچھ نہ پوچھو احوال دل اے یار غار
چین سے سوتے تھے ہم پاؤں پسار
یار نے ہم کو جگا کر ایک بار
در بدر آخر پھرایا کر کے خوار
سوتی تھی سکھ چین سوں گھر مون پاؤں پسار
موہن موہ جگائے کے پھیرت دورا دوار
جس طرح سورج نکلنے سے جناب
ظلمتِ شب دور ہوتی ہے شتاب
دیکھ کر وہ روئے رشکِ آفتاب
ہوش ہو جاتے ہیں سب نقش بر آب
جیون سورج مکھ جات ہے گھر باہر کی چھانھ
تیون میری سدھ جات ہے یہ مکھ دیکھی مانھ
یا الٰہی زور و ظم اس عشق کا
کیوں ہے میری جان پر حد سے سوا
کچھ نہیں معلوم ہوتا مدعا
ہم نفس اس کا دلی مطلب ہے کیا
جور کرت ہی نیھرا بوجھ پرت کچھ نانھ
نا جانوں میں اے سکھی کیھ دھرمن مانھ
برق عشق یار جب سر پر گری
جسم پھونکا جان جلا کر خاک کی
آہ پہلے سے خبر مجھ کو نہ تھی
عشق میں ہوگی یہ آفت جھیلنی
برہ بیچ موہ سرپر یو تن من جل بھیو کھیہ
ہوں بوری کیا جانتی یا کو کہت ہیں نیھ
ہم نفس پہلے نہ تھا ایسا تو حال
آہ اب تو سانس لینا ہے محال
کیجے اب موقوف پند و قیل و قال
یک دم بے یار جینا ہے وبال
سانس لئن نہیں دیت ہے چھن جھپن برہا آئے
اب اُن بن ہوں نارہیوں جیور انکسا جائے
دیکھ اُس کو گم ہوئے ہوش و خرد
مٹ گیا دل سے خیالِ نیک و بد
ہاتھ پکڑا اُس نے جب باشد و مد
ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا رخت جسد
سدھ بدھ تادنسون گئی جا دن دیکھی نانھ
چولی در کی انگ مون جب گہہ پکڑی بانھ
یک بیک جاتے رہے ہوش و حواس
ہو گیا شرم و حیا سے دل اداس
ہاتھ دھو پیچھے پڑا وہ خوش اساس
ننگ و ناموس ایک بھی پھٹکا نہ پاس
سدھ بدھ تن من مون گئی نینن گئی لاج
ہاتھ دھوئے پاچھے پریو مائی موہن آج
جمع کر خاطر پریشان ایک بار
اور لگا آنکھوں میں کحل دیدِ یار
جسم دل سے پاک کر گرد و غبار
یار سے مل چین کر لیل و نہار
بتھریں الکین گوندھ کے نینن کاجل دیھ
تن من دوھ بہار کے ساجن سون سکھ لیھ
لو دیا رخت دوئی ہم نے جلا
زیبِ تن توحید کا جامہ کیا
رنگ تھوڑا اشکِ خونی سے لیا
سرخ سر تا پا لباسِ دل نگار
مانگ سنواری نیھ سون کنگی کر گوندھی بال
گہنا بہری انگ بھر کپڑے پہنے لال
حسرتوں کا ساتھ رہتا ہے ہجوم
گریۂ و زاری کی ہے ہر سمت دھوم
پڑ گئیں پیچھے مرے یہ دو رسوم
یار سے کیوں کر ملوں اے بختِ شوم
پال باجین بات مون اور گھونگرو جھنگانھ
یے دوئی دوکھ ہم سر پری پیوبن کیسی جانھ
رام ہیں جس کے ہزاروں خوش خرام
وہ نہیں ہوتا کسی صورت سے رام
کیا کروں اے ہم نشیں نیک نام
کھانا پینا کر دیا میرا حرام
گئو چراوت پھرت ہے نت اٹھ جمنا تیر
نس دکھ چھن چھن دبت ہے چنچل نپٹ اہیر
ہے میسر ان کو ہر دم دیدِ یار
پھر نہیں جاتا ہے ان کا انتظار
جس طرح سے بھوکا پیاسا روزہ دار
ہر گھڑی بیچین ہر دم بیقرار
رین دنا دیکھت رہین تو اودیتھ نہ چین
نین ٹک نہ اگھات ہیں جون بھوکی بیچین
صبر کی رکھگ ہے گوچھاتی پہ سِل
رات دن ہوں پر الم میں مضمحل
دیکھتا ہوں تو نہیں بھرتا ہے دل
جو نہ دیکھوں مرگ کے ہوں متصل
برہائے سون اے سکھی نپٹ کھٹن بنی آئے
دیکھے تن من نابھرے جن دیکھیے جیو جائے
کاش موئے تن ہوں بیحد و شمار
ہربن مومین ہوں آنکھیں ہزار
دید میں مٹ جاؤں گو میں دلفگار
سیر ہو لیکن نہ یہ جانِ نزار
لاکہن انکھیاں پاؤں جو دیکھوں سب سے پی
دیکھئت دیکھئت مر مٹوں توو بھرے ناجی
آہ ہوں وہ عندلیب نا مراد
بھولتی دم بھر نہیں اس گل کی یاد
اب تو میرے سر پڑی یہ افتاد
جان دوں جب یار کا دل ہوگا شاد
رین و ناگھیرے رہیں اک چھن دیت نہ چین
یا موہن کی ہاتھ سوں پرو موہ جی دین
سرخ آنکھیں کیوں ہیں مثلِ ارغوان
کیوں ہوئے چین برجبیں جان جہاں
کس لیے پلکیں بنیں تیر و سنان
ہاتھ سے ان کے نہیں بچنے کی جان
نین آئے ناتھ میں ماتھے تیوری لائے
موکو کچھ سدھ نانھ چوک کہا پری آئے
دل تڑپتا ہے لبوں پر جان ہے
دم نکلنے کا سا کچھ سامان ہے
ہوش قائم نے بجا اوسان ہے
عاشق فرقت زدہ حیران ہے
دھر دھر ہیراکرت ہے سرسر جیورا جائے
دھر دھر سون دکھ سرپری برہن کی سر آئے
اضطرابی کا کہوں کیا دل کی حال
زندگی دشوار ہے جینا وبال
کون دے تسکین یہ کس کو ہے خیال
عشق کے پنجے سے لے مجھ کو نکال
دھر دھر ہیرا کرت ہے دھیر نہیں کوودیت
نیھ سجن کا پیٹھ من مار مار جیھ لیت
ذکر سنتے ہی جناب عشق کا
اٹھ گئی ایک بار سب شرم و حیا
اس قدر ہے شوقِ دیدِ دلربا
رات دن آنکھیں مری رہتی ہیں وا
پیم لاج سب اٹھ گئی سنت برہ کے بین
پیتم کی در سن بنا تھر تھر کریں دو و نین
عشق نے ایسا کیا مجھ کو زبوں
ہو گیا اک رنگ بیرون و دروں
ہے اسی صورت میں میں یار بے چگوں
اک برائے نام میں کہنے کو ہوں
گھر باہر بھرنیھرا مو کو رہو نہ تھاون
تن من میں موہن بسے رہ گئیو میرا ناون
آہ واویلا دریغا حسرتا
پڑ گئی فرقت کی اب سر پر بلا
آج وہ رکھتا نہیں آنکھوں میں جا
کیوں نہ کھٹکے دل میں پیکاں عشق کا
آج نہ دیکھا لال کو حال ہمارا اور
چبھی برہ کی بھال دکھ کے دورا دور
میں نہ کہتا تھا کہ یار ہم نشیں
طائر دل صید ہوتا ہے یہیں
ہے یہیں وہ دلربائے نازنیں
غارت عشاق ہے یہ سر زمیں
اے ری سکھی یا نگر مون من میرو لیو موہ
موہن ہے یا ڈگر مون نہیں کہت رہیں توہ
لے لیا پہلو سے دل اچھا کیا
گھورتے ہو اب بچشم غیظ کیا
اس قدر جبر و تعدی یہ جفا
آپ کو آتی نہیں شرم و حیا
من میرو لیو موہ سین پھر گھورت ہے موہ
ارے ارے موہن باورے کچھو لاج ہے توہ
عشق کی راہیں کٹھن ہیں اے نثارؔ
اس طرح سہواً نہ جانا زنہار
ہوشیار اے مرد ناداں ہوشیار
ہے یہ جائے تنگ و تار و خار خار
پیت کی ریت کو ریت ہے مت مردو لوناون
بھولے مت جاورے کانٹے ہیں تہ ٹھاؤن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.