Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ہنرنامہ

MORE BYشاہ اکبر داناپوری

    قوم کے واسطےسامان ترقی ہے ہنر

    بادشاہوں کے لئے جان ترقی ہے ہنر

    اہلِ حرفت کے لئے کانِ ترقی ہے ہنر

    باغِ عالم میں گلستانِ ترقی ہے ہنر

    قدر جس ملک میں اس کی نہ ہو برباد ہے وہ

    جس جگہ اہلِ ہنر ہوتے ہیں آباد ہے وہ

    حضرتِ سید سادات شہنشاہِ امم

    جن کے احسان پہ سو جان سے قربان ہیں ہم

    بادشاہِ دوجہاں جانِ عرب فخر و عجم

    جن کے در پر ہیں سلاطینِ جہاں کے سر خم

    آپ فرماتے ہیں کاسب کو حبیب باری

    بےخبر اس سے ہے اس وقت کی امت ساری

    انبیا جتنے تھے سب اہلِ ہنر تھے یکسر

    نوح نجار تھے یہ جانتے ہیں جملہ بشر

    تھے جو داؤد اُنہیں کہتے ہیں سب آہنگر

    نہیں خیاطی میں ادریس سے کوئی بڑھ کر

    عیب پیشوں کو سمجھتے ہیں جہالت سے ہم

    دور ہوجاتے ہیں گویا کہ شرافت سے ہم

    عالم و عارف و منصورِ زماں قطبِ فرید

    فقرا جن کو سمجھتے ہیں امامِ توحید

    کوئی اب تک تو نہ پہنچا، تھی جہاں ان کی رسید

    سخنِ حق تو یہ ہے ہوتے ہیں ایسے بھی سعید

    ہمیں ہاتھ آئے جو کفش اُن کی کریں ہم سرتاج

    نام پاک اُن کا حسین اور تھا پیشہ حلاج

    تھے سیہ فام یہ مشہور ہے لقمانِ حکیم

    حسن میں صورت و سیرت کے تھا اک فرقِ عظیم

    رنگِ رو اُن کا تھا ہر چند سیہ مثلِ گلیم

    نورِ ادراک تھا پر ہمسرِ انوارِ کلیم

    باعثِ عقل و ہنر قوم میں ممتاز تھے وہ

    سر بلندانِ زمانہ میں سرافراز تھے وہ

    آدمی جتنے ہیں بے شبہ بنی آدم ہیں

    بشریت میں ہم اُن سے نہ وہ ہم سے کم ہیں

    متحد صورت و سیرت میں سبھی باہم ہیں

    پر ہنرمند جو فرقے ہیں وہی اعظم ہیں

    کالے گورے کی نہیں اہل ہنر میں تمییز

    آدمی شے نہیں کوئی یہ ہنر سے ہےعزیز

    جتنی قومیں ہیں ہنر سے ہیں وہ مالا مال

    جتنے نوکر ہیں وہ چھوٹھے کہ ہوئے بس کنگال

    یہ ہنر وہ ہے کہ جس کو کبھی آئے نہ زوال

    فلسفی ہونے کا کچھ بھی نہیں حاصل فی الحال

    مالداری جو ہو مطلوب ہنر کو سیکھو

    ہو جو ثروت تمہیں مرغوب ہنر کو سیکھو

    بے ہنر شاہ بھی ہو تو نہیں وقعت اُس کی

    آنکھوں میں باہنروں کے نہیں عزت اُس کی

    ظلم کے ٹیکس کی ہے ساری یہ ثروت اُس کی

    صدقہ یہ اہلِ ہنر ہی کا ہے دولت اُس کی

    ہفت اقلیم قلمرو ہے ہنرمندوں کی

    سلطنت ہے تو ہے اللہ کے اِن بندوں کی

    ایم اے بے اے کا تو حاصل یہی دیکھا ہم نے

    عام لوگوں کی طرح یہ بھی ہیں مارے پھرتے

    ان میں دو چار ہی ہیں پیٹ کے دھندے سے لگے

    اور بیٹھے ہوئے ہیں ہاتھ کو سر پر رکھے

    یہ ہنر جانتے تو یوں نہیں رہتے بے کار

    کاش پہلے سے یہ ہنر ہم کو سکھاتی سرکار

    ہم نے اسکول میں پڑھ کر یہ ہنر ہے سیکھا

    میز پر آتا ہے کس لطف سے کھانا کھانا

    دیکھو ہے کوٹ پہننے کا سلیقہ کیسا

    ہے گلوبند بھی ہم سے بہت اچھا بندھا

    پیشے کو پوچھئے تو ہاتھ ہے اس سے خالی

    ماشااللہ طبیعت کے بڑے ہیں عالی

    اہلِ لندن جو چھری کانٹے سے کھاتے ہیں طعام

    واقفیت نہیں اس بات کی رکھتے ہیں عوام

    اہتمام اس کا انہیں کس لئے ہے صبح و شام

    میں کہوں پر نہیں سننے کا کوئی میرا کلام

    ہاتھ دھونا اُنہیں سردی کے سبب ہے دشوار

    ٹھنڈے ملکوں میں اسی واسطے ٹھہرا یہ شعار

    گرم کپڑوں کے پہننے کی بھی ہے وجہ یہی

    یعنی ہر فصل میں پڑتی ہے وہاں پر سردی

    برف سے منہ کو بچاتی ہے بہت یہ ٹوپی

    بوٹ سے بھی ہے وہاں پیروں کو راحت ملتی

    رسم جس شے کی جہاں ہو وہ وہیں زیبا ہے

    شال کا گرمیوں میں کس نے چغہ پہنا ہے

    ہند تو سرد نہیں اس میں یہ دستور ہو کیوں

    محض تقلید کسی کی ہمیں منظور ہو کیوں

    اپنی پیدائشی عادت سے کوئی دور ہو کیوں

    جبر بے سود سے بے فائدہ مجبور ہو کیوں

    نفع کچھ ہو تو یہ تقلید گوارا ہے ہمیں

    اور بے سود ہے تو اس سے کنارا ہے ہمیں

    فیض کالج ہی کا ہے آج جو ہم ہیں آزاد

    قیدِ مذہب سے نکلنے پہ ہےکیا کیا دل شاد

    ہوگئے اور ہی شیریں کے بس اب ہم فرہاد

    مذہبوں کی متزلزل نظر آئی بنیاد

    دین کیا چیز ہے کہتے ہیں کسے راہِ خدا

    گھر ہے ملت کا کہاں رہتا ہے مشرب کس جا

    قوم کے واسطے اچھی نہیں یہ آزادی

    اس میں ہے امنِ خلائق کی بڑی بربادی

    رہبری ان کی کرے کون کوئی ہے ہادی

    ملک کی کون سی اب تک ہوئی ہے آبادی

    جیسی اس قوم کی صورت تھی وہی اب بھی ہے

    پہلے جو ملک کی حالت تھی وہی اب بھی ہے

    لطفِ آزادی تو یہ ہے کہ ترقی ہو عام

    کام وہ ہو کہ ہو حاصل جسے اثباتِ دوام

    دوسرے ملک پہ موقوف نہ ہو اپنا کام

    مئے یورپ سے بھرا جائے نہ اس قوم کا جام

    شہر اپنا ہو زمیں اپنی ہو گھر اپنا ہو

    ہاتھ اپنا ہو ہنر اپنا ہو زر اپنا ہو

    دین کو بیچ کے دنیا کو خریدا بھی تو کیا

    بن کے بے دین کوئی عہدہ جو پایا بھی تو کیا

    ہو کے بد رنگ اگر رنگ جمایا بھی تو کیا

    موڑ کر اپنوں سے منہ غیر کو دیکھا بھی تو کیا

    لطف جب تھا اسی حالت میں ترقی کرتے

    اسی پوشاک اسی صورت میں ترقی کرتے

    نوکری چھوڑ کے صنعت کی طرف پھرجاتے

    بے ہنر کو اقسامِ ہنر سکھلاتے

    پھر گورنمنٹ کو اس امر کی جانب لاتے

    کر کے آمادہ امیروں کو مدد دلواتے

    کام کرنے کا جو تھا وہ تو نہ زنہار کیا

    وہ کیا کام کہ بس جس سے ہمیں خوار کیا

    نوکری سے نہیں دنیا میں کوئی شے بدتر

    کفش دوزی کا بھی اس سے بہت اچھاہے ہنر

    ہے جو سرکار قلندر تو ملازم بندر

    چاہے جو ناچ نچائے انہیں بے خوف و خطر

    پھر اسی نوکری پر ناز ہے ہم کو اے واہ

    کیوں ہنر پر اسے ترجیح ہے سبحان اللہ

    ایک پائی کی بھی سہواً جو کمی بیشی ہو

    چھوٹوں پھر اپنے عزیزوں سے اسیروں سے ملو

    اور پھر مفت میں دینے بھی پڑیں ایک کے دو

    ان سزاؤں پہ بھی تسکین نہیں حاکم کو

    حکم سرکار ہے مشہور ہوں اعمال اس کے

    اشتہاروں میں لکھے جانے لگے حال اس کے

    جو کلکٹر نے کہا ہم کو وہ ہے حکمِ خدا

    یا کہیں ہم اُسے تقدیر کا اپنی لکھا

    جج کا ارشاد بھلا اُس کا تو ہے پوچھنا کیا

    واں تو پھانسی ہی کا جمتا ہے سراسر نقشا

    آئے اجلاس پہ صاحب تو زمیں بوس ہیں ہم

    دور نخوت سے یہاں سیکڑوں ہی کوس ہیں ہم

    کب ملازم کو ہنرور کی وجاہت ہے نصیب

    بے ہنر کو دنیا میں یہ وقعت ہے نصیب

    ہم سے بےمایۂ و بے زر کو یہ ثروت ہے نصیب

    ہند کے پست خیالوں کو یہ رفعت ہے نصیب

    اہلِ یورپ ہی کی تقدیر میں یہ باتیں ہیں

    اُنہیں کے حصے میں اس عیش کی سب راتیں ہیں

    بوظفر شاہ جو ناشاد ہوئے غدر کے بعد

    اُمرا موردِ بیداد ہوئے غدر کے بعد

    لکھنؤ دہلی جو برباد ہوئے غدر کے بعد

    پیشے والوں ہی سے آباد ہوئے غدر کے بعد

    بات ان شہروں کی پھر رکھ لی ہنر والوں نے

    کیا کیا کچھ نہ کیا لعل و گہر والوں نے

    علم کے بعد اگر ہے تو ہے دنیا میں ہنر

    یہ نہ ہو ذات میں جس کی تو ہے کوڑا وہ بشر

    خاک ہے بے ہنروں پاس جو ہو تو وہ زر

    بہرِ انسان ہیں شرافت کے یہی دو جوہر

    جو ہنرمند ہیں دنیا میں سرافراز ہیں وہ

    سید النوع ہیں افراد میں ممتاز ہیں وہ

    نام جیسا کہ ہنرمندوں کا چلتا دیکھا

    بادشاہوں کو بھی حاصل نہ ہوا یہ رتبا

    نام ان کا ہے زبانوں پہ ہماری لکھا

    کون سا شہر ہے جس میں نہیں چرچا اِن کا

    لائف ان کی ورقِ دل پہ لکھی جاتی ہے

    زندگی خضر کی سی ان کی کہی جاتی ہے

    نام راچرس کا اب تک ہے جہاں میں روشن

    اتنا مشہور نہیں ہے کوئی شاہِ لندن

    اُس کی صناعی کے سکوں کا ہے دنیا میں چلن

    ڈھونڈ کر لیتے ہیں خواہش سے جسے مرد و زن

    قینچییاں ایسی کہ پیسوں کو بنادیں جو ورق

    چاقو تیز ایسے کہ جن سے جگرِ آہن شق

    آبدار اتنے کہ میلے ہوں نظر پڑنے سے

    پھل یہ خوش قطع کہ ہیں نور کے سانچے میں ڈھلے

    دستے ترشے ہوئے ایسے کہ نہ دیکھے نہ سنے

    کاٹ کا لطف زبانوں سے قلم کی پوچھے

    ہند میں ہے کوئی استاد جو دے اس کا جواب

    کاریگر ایسے سبک دست یہاں ہیں نایاب

    سوئیاں کیسی ہیں باریک کہ سبحان اللہ

    کی نظر اُن پہ تو بس بن گئیں وہ تارِ نگاہ

    کیسے انداز سے روزن کو تراشا ہے واہ

    جس کی صنعت میں ہے ہاتھ اپنے ہنر کا کوتاہ

    ہم کو چھوٹا سا بھی یہ کام نہیں آتا ہے

    انہیں حیوانوں کو انسان کہا جاتا ہے

    وہ بھی تھا ایک زمانہ کہ جو تھے ہم زردار

    ڈھیر تھا اشرفیوں کا موتیوں کا تھا انبار

    چاندی سونے کی زمیں ہند کی تھی بےانکار

    تھا یہی ملک تو مشہور دیارو امصار

    کر دیا بےہنری نے یہ اسی ہند کا حال

    امرا سارے گدا ہوگئے تاجر کنگال

    ایک دن وہ تھا کہ کہلاتے تھے ہم صاحبِ مال

    صنعتیں جتنی ہیں حاصل تھا ہمیں سب میں کمال

    سارے تاجر تھے غنی جملہ ہنرور خوش حال

    ہم نے پھیلا ہوا دیکھا ہی نہیں دستِ سوال

    اب وہی ہم ہیں کہ جو کوڑیوں کو ہیں محتاج

    خانہ سامانی ہی انگلش کی ہماری معراج

    خالی جس دن سے ہوا ہاتھ ہنر سے اپنا

    بس تہی ہوگیا سب ملک ہی زر سے اپنا

    گر گیا تاج بھی اقبال کا سر سے اپنا

    گھر ہے ابِ بحر سیہ دیدۂ تر سے اپنا

    ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں آتا نہیں کچھ

    جالی کُھرپی کے سوا طبع کو بھاتا نہیں کچھ

    سیڑھیاں اوج ترقی کی ہیں دنیا میں ہنر

    ان کو سیکھے تو چڑھے بامِ ترقی یہ بشر

    ملک ممکن ہے ہو بے ٓبِ ہنر تازۂ و تر

    ہے یہ پانی پئے سیرابی ملک آبِ گہر

    علم وہ چاہیئے ہم کو جو ہنر سکھلائے

    ایسی تحقیق ہے مطلوب جو کچھ دکھلائے

    مدرسہ کول کا ہوتا یہ اگر مکتبِ فن

    عام ہو جاتے ابھی تو ترقی کے چلن

    نظر آتی یہ زمین ہند کی صحنِ گلشن

    اور آنکھوں سے ہمیں دیکھتے پھرامریکن

    یہ تو کچھ ہونہ سکا کام کیا کیا ہم نے

    پہلے مذہب ہی کا بتلایا صفایا ہم نے

    ہم کو گو علم میں اب پہلے سے بڑھ کر ہے کمال

    نئی تعلیم سے باقی نہ رہے کہنہ خیال

    نقدِ تحقیق سے ہر شخص ہوا مالا مال

    اس ہوا سے ہوئے سرسبز امیدوں کے نہال

    علم بیکار ہے پر اپنی تہی دستی سے

    کوئی سیڑھی نہیں نکلیں جو ہم اس پستی سے

    سیڑھی کیا شے ہے توجہ ہے امیروں کی ادھر

    آج آسان ہے یہ مشکل جو پڑے اُن کے نظر

    صنعتوں کے ابھی ہوجاتے ہیں چرچے گھر گھر

    پھر یہ افلاس زدے ہند کے ہیں اسکندر

    ملک والے جو ابھی مدرسۂ فن کھولیں

    دامنوں میں دُرِ مقصود رعایا رولیں

    پٹنہ والوں نے تو کھلوادیا تھا آرٹ اسکول

    اور ہو بھی چلیں تھیں کوششیں اُن کی مقبول

    بعض حکام نے سمجھا جو اُسے مدِ فضول

    کردئے زیر و زبر یاروں نے سب اُس کے اصول

    اس میں اک لاکھ روپے لطف علی خاں نے دئیے

    اُن کی اولاد کو تاحشر ثواب اس کا ملے

    یہ سخاوت ہے اسے کہتے ہیں خیراہلِ ہنر

    نہیں اجر اس کا مری رائے میں حج سے کم تر

    قوم کا نفع ہو جس میں وہ ہے سب سے بڑھ کر

    یہ سخا دیتی ہے ایثارِ ائمہ کی خبر

    حق یہ ہے نام پئے قوم شرف ان کا ہے

    ذات بے عیب نسب دُرِّ نجف ان کا ہے

    حیدرآباد میں کھل سکتے ہیں دس مکتبِ فن

    اور جے پور بھی دولت کا ہے سرسبزِچمن

    جیواجی کا تو ہے مشہور رئیسوں میں چلن

    یہ اولوالعزم ہیں اس میں نہیں کچھ جائے سخن

    چاہیں یہ سب تو ابھی ہند کی دولت پھرآئے

    ہر گلی کوچہ یہاں کا نئی دنیا بن جائے

    والیِ رام پور اس بات پہ باندھیں جو کمر

    مشکل اپنی نہیں حل ہوتی ہے دیکھیں کیوں کر

    راجہ اندور کے مشہور ہیں باعقل و ہنر

    قومی بہبود کا ہے نقش انہیں کے دل پر

    یہ اگر چاہیں تو اس ہند کو لندن کر دیں

    مفلسوں کے ابھی دامن گہروں سے بھر دیں

    دس برس میں پھر اسی قوم کو وہ ثروت ہو

    غم کدہ مفلسوں کا خانۂ با دولت ہو

    ان میں تاجر ہو کوئی اور کوئی ذی صنعت ہو

    ہمیں گھر سے بھی نکلنے کی نہ پھر حاجت ہو

    ہوچھتے پھرتے ہیں انگلینڈ کے تجار ہمیں

    ڈھونڈنے آتے ہیں برلن کے خریدار ہمیں

    کسی صنعت میں نہیں ہائے سلیقا ہم کو

    اس طرف کھینچ کے کوئی نہیں لاتا ہم کو

    چھوٹے سے چھوٹا ہنر بھی نہیں آتا ہم کو

    کلوں کا کام تو کیا کوئی سکھاتا ہم کو

    اہلِ یورپ سے جو باتیں کبھی ہو جاتے ہیں

    آنکھیں اُوپر کو نہیں اُٹھتی ہیں شرماتے ہیں

    ان لفافوں کا بنانا بھی ہے مشکل کوئی

    اسے دشوار کہے گا کبھی عاقل کوئی

    ایسی صنعت پہ نہیں ہند میں مائل کوئی

    نہیں رکھتا ہے مگر اس کی طرف دل کوئی

    چھوٹے کاموں کو جو ہم لوگ سمجھتے ہیں ذلیل

    اپنے افلاس کی دیکھو یہی روشن ہے دلیل

    کاغذ ایجاد ہوئے ایسے کہ دیکھے نہ سنے

    لیڈی پیپرس میں کیا پھول کے تختے ہیں کھلے

    صفحۂ رخ بھی صفائی کو نہ جس کی پہنچے

    یک قلم سامنے جس کے ورقِ گل میلے

    جدولیں اُن کی سبھی نور کی تحریریں ہیں

    خط مسلسل جو ہیں وہ نقرئی زنجیریں ہیں

    پیچکیں آتی ہیں بن بن کے سو کیسی اچھی

    کتنی ہموار لپیٹ اُن کی ہے سلجھی سلجھی

    نہ تو پھندا کوئی اُس میں نہ گرہ ہے کوئی

    ہم سے کُھل جائے تو بندش نہیں بندھتی اُس کی

    ہے انہیں صںعتوں پر ناز ہمیں واہ رے ہم

    اپنے جاموں میں سماتے نہیں اللہ رے ہم

    تھے جھانے ہی کی ململ پہ ہمیں سوسوناز

    زعم میں اپنی سمجھتے تھے اسے ہم اعجاز

    کیا انگلش نے جو اک بار درِ صنعت باز

    ہم کو ہر رنگ میں دکھلائی نئی اک پرواز

    چھینٹیں وہ چھاپ کے بھیجیں کہ ملا لطفِ بہار

    ایک ادّھی پہ ہوں سو تھان چندیلی کے نثار

    وہی مٹی ہے جو انگلینڈ کی یاں بھی ہے وہی

    کوئی شے اُن کی سی پھر کیوں نہیں ہم سے بنتی

    چائے پینے کی پیالی ہے سنہری کیسی

    صاف تو صاف ہے پھر اُس پہ ہی ہلکی کتنی

    بیل بوٹے جو دکھا دیں تو مصور شرمائے

    نازکی پر کمرِ نازکِ جاناں غش کھائے

    دائرے بیلوں کے گول ایسے کہ بس دورِ قمر

    لے کے پرکار کو ناپو تو برابر یک سر

    پھول رخسارۂ معشوق سے رنگیں بڑھ کر

    ڈالیاں پھولوں کی ہیں غیرتِ شاخِ گلِ تر

    طشتری گلشنِ جنت کی دکھاتی ہے بہار

    چائےدانوں کے چمن پر گلِ فردوس نثار

    اپنی دوکانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اہلِ ہنر

    نہ سلاطین کا ڈران کو نہ وزیروں سے خطر

    آمد و شد ہے امیروں کی خود اُن کے گھر پر

    ایک حالت میں ہیں یاں جملہ ملازم افسر

    اس طرح ملتے ہیں وہ سارے خریداروں سے

    بادشہ جیسے ملے اپنے زمینداروں سے

    کر دیا بے ہنری نے ہمیں بالکل محتاج

    چھن گئیں سلطنتیں گر گیا اقبال کا تاج

    پہلے ہم لیتے تھے اب دیتے ہیں اوروں کو خراج

    کل تھے خود حاکمِ وقت اور رعبت ہیں آج

    انقلاب اپنی جہالت نے دکھایا ہے ہمیں

    کیسی پستی میں بلندی سے گرایا ہے ہمیں

    کوئی قوم ایسی نہیں جیسے کہ ہم ہیں ناشاد

    کون سنتا ہے کریں سامنے کس کے فریاد

    دشمنوں پر نہ پڑے جو پڑی ہم پر اُفتاد

    ہم کو کیا کیا نہ کیا بےہنری نے برباد

    چوری سکھلائی اسی بے ہنری نے ہم کو

    بھیک منگوائی اسی بے ہنری نے ہم کو

    ہر طرف غل ہے یہی ہائے ہنر ہائے ہنر

    اب تو اک رٹ ہے لگی ہائے ہنر ہائے ہنر

    چھا گئی تیرگی سی ہائے ہنر ہائے ہنر

    تیری ہی روشنی تھی ہائے ہنر ہائے ہنر

    اب نکلنا ہمیں دشوار ہےاس پستی سے

    دست و پا ہوگئے بیکار تہی دستی سے

    علم سکھلا کے بنایا ہمیں جاہل ہے ہے

    کیسی چالاکیوں سے کر دیا کاہل ہے ہے

    ایک حالت میں ہیں سب ناقص و کامل ہے ہے

    جو خیالات تھے سب ہوگئے باطل ہے ہے

    دردِ افلاس سے اپنا تو لبوں پردم ہے

    واں یہ رونا کہ ابھی ٹیکس بہت ہی کم ہے

    ہیں جو اسکول میں اس وقت ہزاروں لڑکے

    پڑھ پڑھ کر جو نکل آئے یہ خیریّت سے

    عمر کے تیس برس وہ تو یہیں تیر ہوئے

    نوکری کا بھی قرینہ نہیں جو سب کو ملے

    کوئی پیشہ تو سکھایا ہی نہیں اِن کو وہاں

    پھر گدائی کے سوا اور بھی کچھ ہے ساماں

    متوکل جو بنا چاہو ہنر کو سیکھو

    بےتردد جو جیا چاہو ہنر کو سیکھو

    دین ودنیا میں بھلا چاہو ہنر کو سیکھو

    حق کے محبوب ہوا چاہو ہنر کو سیکھو

    بے ہنر سے نہ نبی ہی نہ خدا راضی ہے

    شاہ راضی ہے نہ اکبرؔ نہ گدا راضی ہے

    مأخذ :
    • کتاب : تجلیات عشق (Pg. 388)
    • Author :شاہ اکبر داناپوری
    • مطبع : مطبع شوکت شاہجہانی، آگرہ (1898)
    • اشاعت : First

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے