دیکھو عمل کی دیوی وہ مسکرا رہی ہے
دیکھو عمل کی دیوی وہ مسکرا رہی ہے
بجلی گرارہی ہے غیرت دلا رہی ہے
بکھرے ہوئے نہیں ہیں موئے دراز اس کے
افسانہ ہائے ماضی تم کو سنا رہی ہے
کب پھول جھڑ رہے ہیں اس کی ہنسی کے پیہم
تم سب کی غفلتوں پر آنسو بہا رہی ہے
کب ہے لچک کمر میں افراط نازکی سے
یہ ضعف کے سبب سے یوں لڑکھڑا رہی ہے
ہرگز نہ تم سمجھنا رقص سرور اس کو
یہ فرط درد وغم سے یوں تلملا رہی ہے
دامن میں اس کے ہرگز گرہیں نہیں پڑی ہیں
تم کو تمہاری بھولی باتیں بتا رہی ہے
اپنے لیے نہیں ہے ذوقِ ترنم اس کا
غفلت کی نیند سے یہ تم کو جگا رہی ہے
ہے بربنائے غیرت یہ اس کی دورباشی
اس سے نہ تم سمجھنا دامن بچا رہی ہے
احساس جب تمہیں کو پیدا نہ ہوتو کیا ہو
آغوش الفت اس کی ہر وقت وا رہی ہے
ہو جوش تو اٹھو تم، ہو شوق تو بڑھو تم
دیکھو تمہاری جانب وہ خود اب آ رہی ہے
لپکو گلے لگالو، آغوش میں اٹھا لو
اب تک تو بےکسی میں یہ مبتلا رہی ہے
ہے جو ادا وہی ہے دل موہ لینے والی
ہے جو نظر پیام اقدام لارہی ہے
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 159)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.