Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

شکوہ

MORE BYعلامہ اقبال

    کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

    فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

    نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

    ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

    جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

    شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

    ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

    قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

    ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم

    نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

    اے خدا شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے

    خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

    تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

    پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

    شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم

    بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

    ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی

    ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی

    ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر

    کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر

    خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر

    مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

    تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا

    قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

    بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی

    اہل چیں چین میں ایران میں ساسانی بھی

    اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی

    اسی دنیا میں یہودی بھی تھے نصرانی بھی

    پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے

    بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے

    تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں

    خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں

    دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

    کبھی ایفریقا کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

    شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی

    کلمہ پڑھتے تھے ہمیں چھاؤں میں تلواروں کی

    ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے

    اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

    تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے

    سر بکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے

    قوم اپنی جو زرو و مال جہاں پر مرتی

    بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی

    ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

    پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

    تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

    تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

    نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

    زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

    تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے

    شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے

    توڑے مخلوق خدا وندوں کے پیکر کس نے

    کاٹ کر رکھ دئیے کفار کے لشکر کس نے

    کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو

    کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو

    کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی

    اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی

    کس کی شمشیر جہانگیر جہاں دار ہوئی

    کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

    کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

    منہ کے بل گر کے ہو اللہ احد کہتے تھے

    آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

    قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی ہوئی قوم حجاز

    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

    نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

    بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

    تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

    محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے

    مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

    کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے

    اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے

    دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

    بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے

    صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے

    نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

    تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے

    تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

    پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

    ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں

    امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہ گار بھی ہیں

    عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں

    ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں

    سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بے زار بھی ہیں

    رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

    برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

    بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے

    ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

    منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے

    اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

    خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں

    اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

    یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور

    نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور

    قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور

    اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

    اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں

    بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

    کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب

    تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

    تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب

    رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب

    طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے

    کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے

    بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا

    رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

    ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا

    پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

    ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

    کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے

    تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے

    شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے

    دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے

    آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

    آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر

    اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

    درد لیلیٰ بھی وہی قیس کا پہلو بھی وہی

    نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

    عشق کا دل بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی

    امت احمد مرسل بھی وہی تو بھی وہی

    پھر یہ آرزدگئ غیر سبب کیا معنی

    اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

    تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا

    بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا

    عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا

    رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا

    آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

    زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

    عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی

    جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

    مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی

    اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

    کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

    بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

    سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے

    اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

    آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے

    پھونک دی گرمئ رخسار سے محفل تو نے

    آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں

    ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں

    وادیٔ نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا

    قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

    حوصلے وہ نہ رہے ہم نہ رہے دل نہ رہا

    گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

    اے خوشا آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی

    بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

    بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے

    سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

    دور ہنگامۂ گلزار سے یکسو بیٹھے

    تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے

    اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے

    برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

    قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز

    لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

    مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز

    تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز

    نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے

    طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

    مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

    مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے

    جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے

    ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

    جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما

    می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

    بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن

    کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن

    عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن

    اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن

    ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک

    اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

    قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں

    پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

    وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں

    ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں

    قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی

    کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی

    لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں

    کچھ مزہ ہے تو یہی خون جگر پینے میں

    کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں

    کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

    اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں

    داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

    چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں

    جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں

    یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں

    پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

    عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری

    نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    نصرت فتح علی خان

    نصرت فتح علی خان

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے