بہار زندگی ایک خواب غفلت کا زمانہ ہے
دلچسپ معلومات
خواب و خیال (نظم)
بہار زندگی ایک خواب غفلت کا زمانہ ہے
خیالی چہچہے ہیں اور ہوائے آشیانہ ہے
جولائیں کام میں چشم بصیرت دیکھنے والے
بنیں محو تماشا اس کی قدرت دیکھنے والے
یہاں سے جو گیا وہ ساتھ چھوڑا یار و ہمدم کا
ہوا ساتھی نہ ہو رنج و الم کا شادی و غم کا
کسی کا کیا بھروسہ جب بھروسہ کچھ نہں دم کا
کوئی کیا بھید سمجھے گا تماشاگاہ عالم کا
خدا کے کام میں کیا دخل ہے اف کر نہیں سکتے
مرے جاتے ہیں یاد رفتگاں میں مر نہیں سکتے
مٹے وہ تاجور نامی جو تھے کشور ستانی میں
گیے وہ پیلتن بے مثل تھے جو پہلوانی میں
سدھارے وہ حسیں شہرے تھے جن کے دلستانی میں
نہ چھوڑا موت نے باقی کسی کو دار فانی میں
یہاں دعویٰ کسی کا اور پیری چل نہیں سکتی
گھڑی وعدے کی جس دم آن پہنچی ٹل نہیں سکتی
کوئی ہو ذرہ ناچیز یا ماہ منور ہو
کوئی محتاج ہو یا بادشاہ ہفت کشور ہو
کوئی بے مہر ہو بے درد ہو یا بندہ پرور ہو
نہیں ممکن کہ جز گور و کفن کچھ بھی میسر ہو
نہ نکلیں گے نکالے سے کسی کے حوصلے دل کے
ملیں گے خاک میں ارمان سب کے خاک میں مل کے
نہیں آتا تھا جن کو چین ہرگز چین بستر پر
جنہیں سایہ بھی اک بار اور وبال جان تھا سر پر
رخ و عارض کو جن کے فوق حاصل تھا گل تر پر
نہ رکھا گردش دوراں نے ان کو ایک محور پر
ہوا جب خاتمہ، تھا خاتمہ ناز و نزاکت کا
نتیجہ مل گیا مٹی میں مل کے عیش و عشرت کا
نہ چھو سکتی سکتی گرد راہ بھی دل کو ہوا ہو کر
ملے ہیں خاک میں وہ کشتۂ تیغ قضا ہو کر
عزیزوں سے الگ احباب سے نا آشنا ہو کر
پڑے ہیں کنج تنہائی میں اب سب سے جدا ہو کر
پیا ہے جام رحلت بادۂ انگور کے بدلے
ہم آغوش لحد ہیں ہائے رشک حور کے بدلے
یہاں سے جا رہا ہے کوئی سب مہجور بیٹھے ہیں
عزیز و اقربا کچھ پاس ہیں کچھ دور بیٹھے ہیں
کچھ ایسی لگ رہی ہے دل پہ جو رنجور بیٹھے ہیں
کسی کی چل نہیں سکتی ہے سب مجبور بیٹھے ہیں
نہاں نظروں سے پیاری پیاری صورت ہونے والی ہے
گھڑی ساعت ہی میں برپا قیامت ہونے والی ہے
بٹھاتے تھے جو پہلو میں وہ آ پہنچے اٹھانے کو
کہانی کہنے والے جمع ہیں یٰسیں سنانے کو
کھڑے ہیں چاہنے والے ہی مٹی میں ملانے کو
ہوئے ہیں مستعد ناپید کرنے کو مٹانے کو
بدل جاتی ہے جب قسمت تو سب آنکھیں بدلتے ہیں
جو ارماں دل کے ہیں وہ گور میں جا کر نکلتے ہیں
اٹھاتے تھے جو ناز آئے وہی تجہیز بھی کرنے
کیا اولاد کو خود دفن جا کے باپ مضطر نے
ملایا خاک میں آخر برادر کو برادر نے
دبایا بہن کو بھائی نے اور بیوی کو شوہر نے
چلے آتے ہیں تنہا ڈال کے دلبر سے دلبر کو
زن و فرزند کو ماں باپ کو خویش و برادر کو
وہ بھائی جو بچھڑتے تھے گھڑی بھر کو نہ بھائی سے
وہ ہمدم دم چھڑکتے تھے جو ہر دم با وفائی سے
وہ دلدادہ جو مرتے تھے کسی کی دل ربائی سے
پرے بیٹھے ہیں بعد مرگ ہٹ کر چار پائی سے
مریں بھی ساتھ مرنے کے وہ باہم رہ نہیں سکتے
کچھ ان کی سن نہیں سکتے کچھ اپنی کہہ نہیں سکتے
چھپے ہیں خاک میں وہ لعل جو نازوں سے پالے تھے
پڑے ہیں گود میں جو گودیوں کے رہنے والے تھے
بسے ہیں جا کے یوں سنسان میں جو بھولے بھالے تھے
اندھرے میں ہیں وہ جو خود کسی گھر کے اجالے تھے
نہ ہیں وہ چاہنے والے نہ وہ آغوش مادر ہیں
نیا دانہ نیا پانی نئی بستی نیا گھر ہے
فنا جس کو نہ ہو دنیا وہ مسکن ہو نہیں سکتا
خزاں جس کو نہ ہو ایسا یہ گلشن ہو نہیں سکتا
کوئی پیدا دوبارہ بعد مردن ہو نہیں سکتا
چراغ عمر ٹھنڈا ہو کے روشن ہو نہیں سکتا
فنا ہے سب کو دنیا میں رہے گا اور کیا باقی
جو باقی ہے وہ باقی ہے نہیں اس کے سوا باقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.