اے بلائے جانم از بالائے تو
در سویداۓ دلم سودائے تو
اے میری جان کی بلا! یہ سب تیری بلندی (حسن) ہی کا اثر ہے،
میرے دل کی گہرائی میں بس تیری ہی چاہت بسی ہے۔
تیغ بر کف چند مستغنی روی
عالمے را کشت استغنائے تو
تو بےنیازی سے ہاتھ میں تلوار لئے فخر سے چلتا ہے، اور تیری اسی استغنا نے ایک دنیا کو ہلاک کر ڈالا ہے۔
از ہمہ بے گانہ می سازد مرا
با رقیباں آشنائی ہاۓ تو
رقیبوں سے تیری آشنائی مجھے تمام لوگوں سے بیگانہ کر دیتی ہے۔
جائے آں دارد کہ آئی جان من
در حریم دل کہ آمد جائے تو
اے میرے محبوب تیرا ٹھکانہ یہی ہے، دل کا آنگن ہی تیرا گھر ہے۔
زاہدا امروز چوں فیضیؔ شدم
فارغ از اندیشۂ فردائے تو
اے زاہد آج میں فیضیؔ جیسا ہو گیا ہوں، تیرے کل کی فکر سے آزاد اور بےنیاز ہو گیا ہوں۔
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 320)
- مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.