Font by Mehr Nastaliq Web

اے بلائے جانم از بالائے تو

فیضی

اے بلائے جانم از بالائے تو

فیضی

MORE BYفیضی

    اے بلائے جانم از بالائے تو

    در سویداۓ دلم سودائے تو

    اے میری جان کی بلا! یہ سب تیری بلندی (حسن) ہی کا اثر ہے،

    میرے دل کی گہرائی میں بس تیری ہی چاہت بسی ہے۔

    تیغ بر کف چند مستغنی روی

    عالمے را کشت استغنائے تو

    تو بےنیازی سے ہاتھ میں تلوار لئے فخر سے چلتا ہے، اور تیری اسی استغنا نے ایک دنیا کو ہلاک کر ڈالا ہے۔

    از ہمہ بے گانہ می سازد مرا

    با رقیباں آشنائی ہاۓ تو

    رقیبوں سے تیری آشنائی مجھے تمام لوگوں سے بیگانہ کر دیتی ہے۔

    جائے آں دارد کہ آئی جان من

    در حریم دل کہ آمد جائے تو

    اے میرے محبوب تیرا ٹھکانہ یہی ہے، دل کا آنگن ہی تیرا گھر ہے۔

    زاہدا امروز چوں فیضیؔ شدم

    فارغ از اندیش‏‍ۂ فردائے تو

    اے زاہد آج میں فیضیؔ جیسا ہو گیا ہوں، تیرے کل کی فکر سے آزاد اور بےنیاز ہو گیا ہوں۔

    مأخذ :
    • کتاب : نغمات سماع (Pg. 320)
    • مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے