باز امروز بصد ناز و ادا آمدہ ای
باز امروز بصد ناز و ادا آمدہ ای
چشم بد دور کہ غارت گر ما آمدہ ای
پھر تو سینکڑوں نازو ادا کے ساتھ آیا ہے
کسی کی نظر نہ لگے شاید تو ہمیں غارت کرنے آیا ہے
بعد عمرے بہ نظر دلبر ما آمدہ ای
می روی باز کجا و ز کجا آمدہ ای
اے میرے دلبر بڑی مدت کے بعد تو نظر آیا ہے
پھر کہاں جارہا ہے اور ابھی کہاں سے آیا ہے
ہیچ کس بر سر کوئے تو نہ پرسید ز من
کہ در اینجا بہ چہ امید و چرا آمدہ ای
کسی نے تمہاری گلی میں مجھ سے نہیں پوچھا
کہ اس جگہ تو کس امید سے اور کیوں آیا ہے
غافل از حال من خستہ ندانم چونی
اے کہ غم خوار تر از شاہ و گدا آمدہ ای
مجھے نہیں معلوم کہ تو مجھ جیسے خستہ حال سے غافل کیوں ہے
تمہارا غمخوار شاہ و گدا کے در سے واپس آیا ہے
چشم دارم کہ کنی بر من آوارہ نظر
گمرہاں را بہ جہاں راہنما آمدہ ای
مجھے امید ہے کہ تو اس آوارہ پر نظرِ کرم کرے گا
تو اس دنیا میں گمراہوں کا رہنما بن کے آیا ہے
مختصر کن حسنؔ ایں طول امل ہائے عبث
بہر یک دم تو دریں دار فنا آمدہ ای
اے حسنؔ اپنی امیدوں کی فہرست کو مختصر کر
تو اس دارِ فانی میں ایک لمحہ کے لئے آیا ہے
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 342)
- مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.