از جاں خیال آں قد رعنا نمی رود
از جاں خیال آں قد رعنا نمی رود
نقش جمال او ز دل ما نمی رود
1. (آں قد رعنا سے اشارہ آنحضرت کی طرف ہے۔ حضرت فرد کو زیارت نصیب ہوئی تھی ۔ یہ غزل اسی تاثر کا نتیجہ ہے)۔ اس قد رعنا کا خیال، ان کے جمال باکمال کا نقش جو دل پر ثبت ہو گیا وہ اب مٹ نہیں سکتا۔
ناصح بہ عاشقاں نہ دہد سود پند تو
از یاد قیس صورت لیلیٰ نمی رود
2. اس شعر میں ایک عام بات کہہ رہے ہیں کہ عاشقوں کو نصیحت سودمند نہیں ہوتی جیسے مجنوں کے ذہن سے لیلیٰ کی صورت مٹ نہیں سکتی۔
پروردۂ قفس نہ کند یاد گلشنے
خو کردۂ در توبہ صحرا نمی رود
3. کسی گلشن کی یاد پابند قفس نہیں ہوسکتی (یعنی جس طرح قفس میں رہنے والا پرندہ اپنے گلشن کو نہیں بھول سکتا، اسی طرح آپ کی یاد، باوجود دور رہنے کے دل سے نہیں مٹ سکتی ) تمہارے در پر رہنے کا عادی، صحرا کا رخ نہیں کرسکتا (یعنی میں رہنے والا جانور جس طرح انس ومحبت پا کر صحرا کو بھول کر مالک کے درکا عادی بن جاتا ہے، اسی طرح آپ کی محبت پاکر عاشق آپ سے دور ہونے کی بات سوچ بھی نہیں سکتا)۔
یک جرعۂ بہ کام من از شربت وصال
ایں تشنگی فردؔ ز دریا نمی رود
4. میرے حلق میں شربت وصال کا ایک گھونٹ ڈال دیجئے، کیونکہ فرد کی یہ پیاس دریا سے بجھنے والی نہیں ہے۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 193)
- Author :شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.