رقصم بہ رقصیم کہ خوبان جہانیم
رقصم بہ رقصیم کہ خوبان جہانیم
نازم بہ نازیم کہ در عینی عیانیم
ناچتے ہیں ناچتے ہیں کہ جہاں کہ خوبرو ہیں، ناز کرتے ہیں ناز کرتے ہیں کہ ظاہر عین ہیں۔
چوں تشنہ باشیم کہ دریائے محیطیم
چوں گنج بجوئیم کہ ما گوہر کانیم
جب کہ میں سمندر میں محیط ہو کر بھی پیاسا ہوں یہ تو اس طرح سے ہے کہ ہم خود ہیرے جواہرات کی کان ہیں اور ہم کوئی خزانہ تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں۔
نہ آبیم و نہ بادیم و نہ خاکیم و نہ آتش
مائیم بہر صورت و ما کون و مکانیم
نہ آبی اور نہ ہادی، نہ خاکی اور نہ آگا سے ہوں، ہم ہر صورت میں اور ہم کون و مکان والے ہیں۔
نہ اسمیم نہ جسمیم نہ بسمیم و نہ رسمیم
نہ میمیم نہ جیمیم نہ اینیم و آنیم
نہ میں اسم ہوں، نہ جسم ہوں، نہ بسم ہوں نہ میں رسم ہوں اور اسی طرح نہ میم ہوں نہ جیم ہوں اور نہ یہ ہوں نہ وہ ہوں۔
در عقل نگنجیم کہ آں نور خدائیم
در فہم نہ آئیم کہ بے نام و نشانیم
میں وہ خدائی نور ہوں کہ جو عقل و فہم میں نہیں آسکتا، میں فہم و ادراک میں نہیں آ سکتا کہ میں تو گویا ایک طرح سے بے نام و نشان ہوں۔
چوں براق سواریم بنازیم نہ لاہوت
ز کس باک نہ داریم و اغیار برانیم
جب براق پر سوار ہوتے ہیں تو لاہوت کی طرف جاتے ہیں، ہم کسی سے بھی نہیں ڈرتے اور دشمن سے بے پرواہ ہیں۔
مطلوب نہ طلبیم کہ ایں طالب حرام است
اللہ نگوئیم کہ در شرک بمانیم
میں اپنے مطلوب کو طلب نہیں کرتا کہ یہ طلب کرنا حرام ہے اور میں اللہ سے بھی نہیں کہتا کہ مبادا میں شرک کرنے والوں میں ہو جاؤں۔
شہبازؔ پریدیم و از خویش گذشتیم
با دوست بمانیم و بے دوست ندانیم
شہباز بن کر پرواز کی اور خود سے بھی گذر گیے، دوست سے ملے ہیں، لہٰذا ہم بغیر دوست کے تو کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔
- کتاب : دیوان لعل شہباز قلندر (Pg. 91)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.