Font by Mehr Nastaliq Web

ز عشق دوست ہر ساعت درون نار می رقصم

لال شہباز قلندر

ز عشق دوست ہر ساعت درون نار می رقصم

لال شہباز قلندر

MORE BYلال شہباز قلندر

    ز عشق دوست ہر ساعت درون نار می رقصم

    گہے بر خاک می غلطم گہے بر خاک می رقصم

    میں محبوب کی محبت کے باعث ہر دم آگ میں ناچتا ہوں، کبھی خاک لوٹتا ہوں، کبھی کانٹوں پر رقص کرتا ہوں۔

    شدم بدنام در عشقش بیا اے پارسا ہم بیں

    نمی ترسم ز رسوائی سر بازار می رقصم

    میں اس کے عشق میں بدنام ہوگیا ہوں، اے زاہد، تو بھی آکر دیکھ، مجھے بدنامی کا ذرا خوف نہیں، میں سر بازار رقص کرتا ہوں۔

    بیا اے مطرب و ساقی! سماع و ذوق را در دہ

    کہ من از شادی و صلش قلندر وارمی رقصم

    اے مطرب اور جام پلانے والے ساقی! کوئی درد بھرا نغمہ چھیڑ اور دل میں شوق پیدا کر، میں اب وصل کی خوشی میں قلندر وار رقص کرتا ہوں۔

    مرا مخلوق می گوید گدا چنداں چہ می رقصی

    بہ دل داریم اسرارے ازاں اسرار می رقصم

    مجھے مخلوق کہتی ہے کہ اے فقیر! تو کس لیے اتنا ناچتا ہے؟ میں نے کہا، دل میں اسرار رکھتا ہوں، اسی اسرار کے باعث رقص کرتا ہوں۔

    خلائق گرکند برمن ملامت زیں رہی ہر دم

    مگر نازم بر ایں ذوقیکہ پیش یار می رقصم

    مخلوق اس لیے ہمیشہ میری ملامت کرتی ہے لیکن میں اپنے اس ذوق پر ناز کرتا ہوں کہ اپنے محبوب کے سامنے رقص کرتا ہوں۔

    اگر صوفی شوی یارم تا من ایں خرقہ را پوشم

    چہ خوش زنار بربستم بہ ایں دیدار می رقصم

    اے صوفی! اگر تو میرا دوست بن جائے تو میں یہ خرقہ پہن لوں لیکن میں نے تو زنار باندھا ہوا ہے اور کتنا بھلا لگتا ہے اور میں اس کا دیدار کرنے کے خاطر ناچتا ہوں۔

    چوں یارم جلوہ بہ نماید مرا مدہوش می سازد

    نمی دارم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم

    جب یار اپنے جلوے سے مجھے مدہوش کر دیتا ہے تو معلوم نہیں کہ آخر کیوں دیدار کے وقت رقص کرتا ہوں۔

    حباب دوستاں در دل کجا ایں قلقلہ مینا

    کہ تو کم نغمہ می سنجی و من بسیار می رقصم

    دوست کے حلقۂ دل میں کیا صراحی کیا آواز، تو کم نغمہ گائے تو تو کم نغمہ سرائی کرے گا اور میں تو بے پناہ رقص کرتا ہوں۔

    کہ تو آں قاتل کز بہر تماشہ خون من ریزی

    من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم

    تو تو وہ قاتل ہے جو صرف تماشے کے لیے مجھے قتل کرتا ہے، میں وہ گھائل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے بھی رقص کرتا ہوں۔

    خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را

    زہے تقویٰ کہ من باجبہ و دستار می رقصم

    مجھے رندی بھا گئی ہے کہ میں ان کے پاؤں کو بے پناہ پارسائی کے ساتھ (اپنی آنکھوں پر) ملتا ہوں، میں لائق مبارک باد اور لائق تحسین ہوں کہ جبہ و دستار سمیت رقص کرتا ہوں۔

    تپش چوں حالت می آرد بروئے شعلہ می غلطم

    خلش چوں لذتی بخشد تہہ نوک خار می رقصم

    مجھ پر تپش نے جو حالت وارد کی ہے میں اس سے اور بھی شعلہ کی طرح تڑپتا اور مچلتا ہوں اور خلش اور چبھن جب مجھے لذت بخش دیتی ہے تو میں کانٹے کی نوک کے نیچے بھی رقص کرتا ہوں۔

    بیا جاناں تماشہ کن کہ در انبوہ جاں بازاں

    بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

    اے دوست آ کر جاں بازوں کے ہجوم میں تماشہ دیکھ، میں بدنامی اور رسوائی کے سو سامانوں کے ساتھ سربازار رقص کرتا ہوں۔

    منم عثمان مروندی کہ یار خواجہ منصورم

    نہ لرزم از ملامت آں کہ من بردار می رقصم

    میں عثمان مروندی خواجہ منصور کا دوست ہوں اور میں کسی ملامت سے نہیں ڈرتا، نہیں گھبراتا، میں تو سولی پر بھی رقص کرتا ہوں۔

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان لعل شہباز قلندر (Pg. 119)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے