دین و دل غارت شدہ جانم بہ یغما رفتہ است
دین و دل غارت شدہ جانم بہ یغما رفتہ است
حیف ہا از یک نگاہِ یار برما رفتہ است
دین اور دل غارت ہوگئے میری جان لوٹ لی گئی
یار کی ایک نگاہ سےمجھ پر بہت سےستم ٹوٹ گئے ہیں
در تماشائے خرامش ساکنانِ شہر را
ہوش از سر تاب از دل طاقت از پا رفتہ است
تیرے خرام کو دیکھنے (کے بعد) سےشہر کے ساکنوں کے
سر سے ہوش ، دل سے تاب، پیروں سے طاقت جا چکی ہے
در از آں سرمایۂ جاں ہیچ لطفِ زیست نیست
کس نشانِ چشمِ ما شاید بہ آں بے تہ نہ داد
اس سرمایۂ جاں سے دور زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے
جو کہ اس در سے چلا گیا ہے گویا کہ دنیا سے چلا گیا ہے
ابرِ بہرِ آب آوردن بہ دریا رفتہ است
سالہا بر یادِ آں قامت بکائے کردہ ایم
کسی نے شاید ہماری چشم کا پتہ اس بے اصل کو نہیں دیا
ابر پانی لانےکے لیے دریا کو گیاہے
تا بہ ایں انداز کارِ گریہ بالا رفتہ است
از محبت چشم آسائش نہ باید داشتن
ہم نے اس قامت کی یاد میں سالوں بکا کی ہے
تب اس انداز میں گریہ کے ہنر نے ترقی کی ہے
آں بلاے است ایں کز وخوابِ زلیخا رفتہ است
ما ومجنوں مدأتے در شہرِ یک جا ماندہ ایم
محبت سےآسائش کی امید نہیں رکھنی چاہئے
یہ وہ بلا ہے کہ اس سے خوابِ زلیخا اڑ گیا تھا
در فراقش جائے او محسوس غیر از درد نیست
دل دردن سینہ ام چوں عضو از جا رفتہ است
ہم اور مجنوں مدّتوں شہر میں ایک ساتھ رہتے تھے
کچھ دن ہوئے کہ وہ وحشی صحرا کو چلا گیا ہے
ظاہر است از ناامیدی ہائے میرؔ خرقہ پوش
کہ ایں فقیر امروز اگر ایں جاست فردا رفتہ است
اس کے فراق میں اس جگہ درد کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا
میرے سینے میں دل عضو از جا رفتہ کی طرح ہے
- کتاب : دیوانِ میر فارسی (Pg. 74)
- Author : افضال احمد سید
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.