بہ گلشن بسے آں کہ گردیدہ باشد
بہ گلشن بسے آں کہ گردیدہ باشد
گلِ ناز کے چوں تو کم دیدہ باشد
جو بھی گلشن میں بہت گھوما ہوگا
(اس نے) تجھ جیسا نازک پھول کم دیکھا ہوگا
بدیں رنگ اگر از درِ باغ آئی
ندامت کشد ہر کہ گل چیدہ باشد
اس رنگ سے اگر تو باغ کے دروازے سے آیا
جس نے بھی پھول چنا ہوگا، شرمندہ ہوجائے گا
نیامد بہ چشم من امروز سنبل
ز گیسوئے او شانہ دزدیدہ باشد
سنبل آج میری نظر میں نہیں جچا
اس کے گیسو سے کترارہا ہوگا
چہ ناعاقبت بیں کسے بود ظالم
نخست آں کہ عشقِ تو دزدیدہ باشد
ظالم وہ کتنا نا عاقبت بیں تھا
جس نے تیرے عشق کو سب سے پہلے اختیار کی اہوگا
بہ خود نیست امروز از صبح نرگس
مگر چشم مخمورِ او دیدہ باشد
آج صبح سے نرگس ہوش میں نہیں ہے
ضرور اس کی نشے میں چور آنکھوں کو دیکھا ہوگا
یقین است آں کم سخن حالِ زارم
پس از مرگِ من ہم نہ پُرسیدہ باشد
یقین ہے اس کم سخت نے میرا حالِ زار
میرے مرنے کے بعد بھی نہیں پوچھا ہوگا
خرامت بہ طرزے، کلامت بہ طورے
ترا کم کسے میرؔ فہمیدہ باشد
تیری چال ایک خاص طرز کی، تیری بات ایک خاص طور کی
تجھے میرؔ کسی نے کم (ہی) سمجھا ہوگا
- کتاب : دیوانِ میر فارسی (Pg. 188)
- Author : افضال احمد سید
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.