قد بَداَ مشہدَ مولائی اَنَیخُوا جَملِی
قد بَداَ مشہدَ مولائی اَنَیخُوا جَملِی
کہ مشاہد شد ازاں مَشہدم انوارجلی
1. میرے مولیٰ کا مشہد ظاہر ہوگیا (مشہد علی مرتضیٰ) اے لوگو! میرا اونٹ یہیں بٹھا دو، کہ اس مشہد کے انوار میرے سامنے ظاہر ہورہے ہیں (اب اونٹ پر سوار رہنا خلاف ادب ہے۔ مشہد یعنی جائے شہادت، مراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا روضۂ شریفہ ہے)۔
رویش آں مظہر صافیست کہ در صورت اصل
آشکار است ازو عکس جمال ازلی
2. ان کا چہرہ (روئے علی) وہ مظہر صافی ہے (مظہر مصفّا) کہ درحقیقت اس سے جمال ازلی (انوارِ الٰہی) آشکارا ہے (یعنی حضرت علی کا روئے مبارک اس صاف شیشے کی طرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ازلی جمال کا عکس وپرتو نمایاں ہے)۔
زندۂ عشق نہ مردہ است نہ میرد ہرگز
لایزالی بود ایں زندگیِ لم یزلی
3. عشق (الٰہی) کے ساتھ جینے والا نہ مرا نہ کبھی مرے گا، یہ دائمی زندگی مٹنے والی نہیں ہے(یعنی جس کا دل عشق الٰہی سے زندہ ہے اس کی زندگی فنا پذیرہوئی نہ ہوگی)۔
جامیؔ از قافلہ سالار رہ عشق ترا
گر بہ پرسند کہ آں کیست علی گوئے علی
4. جامی! راہ عشق (الٰہی) کے قافلہ سالار کے بارے میں لوگ پوچھیں کہ وہ کون ہے؟ تم کہہ دوکہ وہ علی ہیں علی (کرم اللہ وجہہ ووجوہ ابنائہ الکرام)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 299)
- Author :شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.