Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

رخ بنما کہ اے پری صبح امید من توئی

شفیع بہاری

رخ بنما کہ اے پری صبح امید من توئی

شفیع بہاری

دلچسپ معلومات

’’نغماتِ سماع‘‘ کے حوالے سے یہ غزل خانقاہ معظم، بہار شریف کے حضرت شاہ محمد شفیع فردوسی کی بتائی جاتی ہے جب کہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ شیخ جمال الدین احمد ہانسوی نے اپنے پیرومرشد بابا فریدالدین گنجِ شکر کی طرف خیال کرتے ہوئے لکھا تھا۔

رخ بنما کہ اے پری صبح امید من توئی

برقع کشا کہ اے صنم جلوۂ عید من توئی

چہرہ دکھا اے محبوب کہ تو میری صبح امید ہے۔ برفق ہٹا تو اے صنم کہ میری عید کا توہی جلوہ ہے (یعنی تیری جلوہ افروزی میری عید ہے)۔

ہر سخنے کہ می کنی جاں بحلاوت آیدم

گنج شکر بہ زیر لب فرید من توئی

تیری ہر بات سے مجھ کو حلاوت جاں حاصل ہوتی ہے، گنج شکر (شکر کا خزانہ) تیرے زیر لب ہے۔ میرا پیر فرید توہی ہے۔

شکوہ ز دہر چوں کنم رنج ز چرخ چوں برم

ایکہ ز فضل ایزدی بخت سعید من توئی

زمانے کا شکوہ کیوں کروں، آسمان (کے ستم) کارنج کیوں اٹھاؤں؟ خدا کے فضل سے تو میری خوش نصیبی ہے۔

بخت شدہ بہ کام من گشت مراد حاصلم

تا سگ کوئے تو مرا گفت مرید من توئی

مجھے تقدیر موافق اور مراد حاصل ہوگئی ، جب تمہاری گلی کے کتے نے کہہ دیا کہ تو میرا مرید ہے۔

در تن من ہزار جاں رقص کناں بر آمدہ

یار مرا چو اے شفیعؔ گفت شہید من توئی

میرے محبوب نے جب مجھ کو کہہ دیا کہ اے شفیع! تو میرا شہید (شہید محبت) ہے تو اس وقت رقص کرتی ہوئی ہزار جانیں، میرے مقتول جسم میں آ گئیں (اور مجھے حیات سرمدی مل گئی جو شہید راہ خدا کو ملتی ہے)۔

ویڈیو
This video is playing from YouTube

Videos
This video is playing from YouTube

فرید ایاز

فرید ایاز

مأخذ :
  • کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 323)
  • Author :شاہ ہلال احمد قادری
  • مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
  • اشاعت : First

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے