Sufinama

دل برد زمن حسن مزار شرف الدین

صوفی منیری

دل برد زمن حسن مزار شرف الدین

صوفی منیری

MORE BYصوفی منیری

    دلچسپ معلومات

    منقبت درشان مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری (بہار شریف-نالندہ)

    دل برد زمن حسن مزار شرف الدین

    پیداست ازیں روضہ بہار شرف الدین

    شرف الدین کے حسین مزار نے میرا دل لوٹ لیا

    شرف الدین کی بہار اسی روضے سے ظاہر ہے

    گردیدہ نشد جلوہ گہہ نور بقایش

    بادا دل من آئینہ دار شرف الدین

    ان کے نور سراپا کی جگہ اوجھل نہ ہو

    میرا دل اور شرف الدین کا برزخ ہو

    مخدوم جہاں اوست کہ بر مسند تمکیں

    پیرایۂ شرع است شعار شرف الدین

    مخدوم کی تمکنت کی قالین پر

    شریعت کا ڈھنگ شرف الدین کا انداز ہے

    بر مرکز وقت اوست بتمکین و کند دور

    پرکار زمانہ بمدار شرف الدین

    وقت کے مرکز پر شرف الدین متمکن ہے

    اور زمانہ کے پرکار پر ٹیک لگا ئے چکر کر رہا ہے

    اوہام بشر کے رسد آنجا کہ ملائک

    حیرت زدہ ٔحالت و کار شرف الدین

    انسان کا گمان وہاں کیسے پہنچے جہاں فرشتے

    شرف الدین کے مقام سے سکتہ میں ہیں

    روح القدس آید بطرب ازنے کلکم

    آندم کہ شوم مدح نگار شرف الدین

    میرے قلم کی بانسری پر روح القدس مست ہو جائے

    جس وقت میں شرف الدین کی تعریف لکھوں

    از قیمت کونین فزوں یافت شہ عشق

    چوں زد بمحک نقد عیار شرف الدین

    دونوں جہاں کی قیمت سے زیادہ کھرا پایا شرف الدین کے عشق کے مرتبہ شاہی کا

    کھوٹ جب جانچ کی کسوٹی پر کسا

    چوں مردمک دیدۂ ارباب بصیرت

    نور است سراسر شب تار شرف الدین

    روشنی بخش نگاہوں کی پتلی کی طرح

    شرف الدین کی اندھیاری رات (چودھوہویں رات) بھر پور روشن ہے

    زندہ بحق و جلوۂ حق است غذایش

    روح است سرا پاتن زار شرف الدین

    خدا کے ساتھ باقی اور خدا دیکھنا ان کی (پرورش) غذا ہے

    شرف الدین کا دبلا پتلا جسم سر سے پاؤں تک روح ہی روح ہے

    از حق بحق آمد حرکات و سکناتش

    باخویش نبودہ سر و کار شرف الدین

    حق سے حق ہی کی طرف ان کی جنبش اور سکون

    شرف الدین کو اپنی خودی سے سروکار (واسطہ) نہ تھا

    دیدن بسوئے لوح چہ حاجت کہ نہادند

    لوح از دل روشن بکنار شرف الدین

    لوحِ محفوظ دیکھنے کی (منز) کیا حاجت جب شرف الدین کے پہلو میں

    روشن دل کا لوح (محفوظ) رکھا ہے

    چشم از دوجہاں بستن و بر دوست کشادن

    در عالم خود لیل و نہار شرف الدین

    دین اور دنیا سے آنکھ پھیر کر یار پر ٹکٹکی

    شرف الدین کے عالم کا یہ دن رات ہے

    پرواز عروجش چہ تواں گفت کہ عنقا

    ہنگام نزول است شکار شرف الدین

    ان کی اونچی اڑان کیا کہئے

    شرف الدین کے (بلندی سے) نیچے کی طرف آتے شکار ہیں

    از آتش دل سوخت نقاب رخ فردا

    آہ سحر صنا عقہ بار شرف الدین

    دل کی آگ سے کل کے چہرے کا نقاب جلا ڈالا

    شرف الدین کی صبح کی آہ بجلی برسانے والی ہے

    شد زندہ ہر آن مردہ کہ جایافت بکویش

    فردوس بریں است جوار شرف الدین

    جس مردہ نے ان کی گلی میں جگہ پائی جی گیا

    شرف الدین کا پڑوس فردوس ( اعلیٰ جنت) ہے

    خوش بگذرم آسودہ دمے چند بجنت

    داند دل من راہ دیار شرف الدین

    تھوڑی دیر جنت میں آرام لے کر (تھکی مٹا کے) اچھا چلوں گا

    میرا دل شرف الدین نگر کی راہ جانتا ہے

    بنگر شرف اختر فیروزی بختم

    طالع شدہ از برج حصار شرف الدین

    میری بہتر تقدیر کے ستارے کی بلندی دیکھو

    شرف الدین کے حصار کے برج سے نکلا ہے

    از بندہ چہ آید بجز اقرار غلامی

    کاں آمدہ فخر من و عار شرف الدین

    مجھ غلام سے غلام کی رٹ کے سوا کیا نکلے

    کہ میرا فخر آیا اور شرف الدین کا ننگ ہے

    سایم بدرش جبہہ کزاں داغ بمحشر

    زود آمدہ باشم بشمار شرف الدین

    ان کے در پر ماتھا ٹیک رہا ہوں کہ اس گھٹے سے قیامت میں

    جلد شرف الدین کے غلاموں میں مشرقی شمار ہوجا ؤں

    قلب است زر من نظرے بایدم ازوے

    تا آرمش از بہرِ نثار شرف الدین

    میرا سونا کھوٹا ہے ان کی نظر کرم چاہئے

    کہ اسے شرف الدین پر نچھاور کرنے کو لاؤں

    دادیم بدستش دل وشادیم کہ آید

    ایں دانۂ تسبیح بکار شرف الدین

    ان کے ہاتھ میں دل دے کر خوش ہوں

    یہ تسبیح کا دانہ شرف الدین کے مصرف میں آئے

    روز سیہ خویش زشب می نشانم

    کو پرتو خورشید عذار شرف الدین

    اپنے سیاہ دن رات سے تمیز نہیں کرتا ہوں

    کہ شرف الدین کے آفتاب سے چہرے کا عکس ہے

    ہاں اے دل گم گشتہ رسائی خبر من

    دربار گہہ عرش وقار شرف الدین

    ہاں اے بھاگا ہوا دل میری خبر پہنچا

    شرف الدین کے عرش منزلت دربار میں

    گیرد مگر او دست دریں عجز کہ صوفیؔ

    افتاد سر راہ گزار شرف الدین

    اس مجبوری میں وہی سہارا دے کہ صوفیؔ

    شرف الدین کی رہگزر پڑا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے