دلم در عاشقی آوارہ شد آوارہ تر بادا
دلم در عاشقی آوارہ شد آوارہ تر بادا
تنم از بے دلی بے چارہ شد بے چارہ تر بادا
عاشقی میں میرا دل آوارہ ہو چکا ہے، خدا کرے یہ اور بھی آوارہ ہو جائے۔
بےدلی سے یہ بدن بھی بےچارہ ہو گیا ہے،خدا کرے یہ اور بھی بےچارہ ہو جائے۔
بہ تاراج اسیراں زلف تو عیار می دارد
بہ خوں ریز غریباں چشم تو عیارہ تر بادا
قیدیوں کو تباہ کرنے میں تیری زلف کو دھوکہ دینا آتا ہے،
غریبوں کا خون بہانے میں تیری آنکھ کو مہارت حاصل ہو جائے۔
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ ایں آوارۂ کوئے بتاں آوارہ تر بادا
اے زاہد! اگر تو میرے حق میں دعا ہی کرنا چاہتا ہے،
تو یہ دعا کر کہ بتوں کی گلی میں اور زیادہ آوارہ ہو جاؤں۔
چو با تر دامنی خوں کرد خسروؔ با دو چشم تر
بہ آب چشم مژگاں دامنش ہموارہ تر بادا
اے خسرو! اگر تجھے بھیگی آنکھیں پسند ہیں،
تو ایسا ہو کہ تیرے آنسوؤں سے اُس (محبوب) کا دامن ہمیشہ تر رہے۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 131)
- Author :شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 4)
- مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.