اے سرو نازنین من از من چہ دیدہ ای
اے سرو نازنین من از من چہ دیدہ ای
یک بار مہر از من مسکین بریدہ ای
اے سرو کی قامت والے میرے نازنین، آخر تو نے مجھ میں ایسا کیا دیکھا کہ مجھ مسکین کو ایک مہر و محبت بھری نگاہ سے دیکھا اور پھر نگاہ قطع کر لی۔
اول وفا نمودی و بردی دل مرا
آخر چہ شد کہ عارض از من کشیدہ ای
پہلے تو، تو نے پیار اور وفا دکھا کر میرا دل لوٹ لیا، اب آخر ایسا کیا ہوا کہ اپنا رخسار مجھ سے پھیر لیا ہے۔
آرے بہ سیم و زر ہمہ کس بندہ می خرید
من بندۂ تویم کہ بے زر خریدہ اہ
ہاں یہ سچ ہے کہ کہ غلام مال دے کر ہی خریدا جا سکتا ہے لیکن میں تو آپ کا وہ غلام ہوں کہ بےدام اور بغیر قیمت کے ہی آپ کے ہاتھ بک گیا۔
فخرم بسست ایں کہ کمینہ سگ توام
نازم بر آں زماں کہ بہ لطفم خریدہ ای
مجھے اس پر فخر ہے کہ میں آپ کا ایک کمترین کتا ہوں، مجھے اس گھڑی پر ناز ہے جس گھڑی آپ نے مجھے خریدا تھا۔
خسروؔ تو بس بلند شدی در طریق عشق
گویا بہ پائے بوسہ سگانش رسیدہ ای
اے خسروؔ تُو تو عشق کے راستے پر یوں بلند تر ہوگیا ہے، گویا تُو محبوب کی گلی کے کتوں کے پاؤں چوم کر آیا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.