پزشک من شفیق و مہربانست
پزشک من شفیق و مہربانست
بمن غمخوار و دائم خوش زبانست
میرا طبیب مشفق و مہربان ہے اور ہمیشہ میرا غمخوار و خوش بیان ہے۔
بحال تب شب بیداری من
بگوشش میرسد چوں زاری من
رات بخار کی حالت میں جیسے ہی میرے رونے کی آواز اس کے کانوں تک پہنچی۔
دواں آیت بہ پیش بستر من
کشاند دست بر چشم تر من
وہ دوڑتا ہوا میرے بستر کے قریب آیا اور میری چشم پرنم پر اپنا ہاتھ پھیرا۔
سبب می پرسد از رنج درازم
ز رنگ زرد و آہ جاں گدازم
اس نے میری زرد رنگت،آہ و زاری اور طویل رنج و الم کا سبب پوچھا۔
بہ وی میگویم اے راحت کن درد
ز درد دل بود رنگم چنین زرد
میں نے اس سے کہا کہ میرے درد کو کم کرو،آرام دو کہ دل کے درد کے سبب میری رنگت اس طرح زرد ہوئ جاتی ہے۔
پزشک نازنیں رفتار و خوش گل
پئے دانستن بیماری دل
میرا خوبصورت انداز و روش والا خوش اطوار طبیب میرے دل کی بیماری کا پتہ لگانے کے لۓ
نہد چوں رو بہ روی سینۂ من
گریزد دل ز سوئے سینۂ من
جیسے ہی میرے سینے کے قریب آیا میرا دل سینے سے نکل گیا۔
کند حس، با وفا، کایں روی او نیست
بہ جعدش بوئے آں مشکینہ مونیست
محسوس یہ ہوا کہ وفاداری اس کا چہرہ نہیں ہے اور اس کے مشکدار گھنگھرالے بالوں کی خوشبو،خوشبو نہیں ہے۔
ببندد دیدہ را، خامش نشیند
نمی خواہد بجز او را ببیند!
آنکھوں کو بند کر کے خاموش بیٹھ گیا، نہیں چاہتا تھا کہ اس کے سوا کوئ دیکھے۔
ز جوش و از طپش آرام گردد
چناں در کنج سینہ رام گردد
سوز و غم سے آرام پائیگا تا کہ سینے کے گوشے میں آباد کر سکوں۔
کہ گویا درد در عالم ندیدہ است
بعمرش سایۂ غم ہم ندیدہ است
ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس نے دنیا میں کبھی درد دیکھا ہی نہیں ہے اور تمام عمر اس نے غم کا سایہ بھی نہیں دیکھا ہے۔
چو آں طفلے کہ دایہ جائے مادرش
ہمی خواہد خوراند شیر و شکرش
اس بچے کی طرح کہ جس کی دایہ ماں کی جگہ پر ہو اور اسے شیر و شکر کھلانا چاہتی ہو۔
ولے کودک دہاں را سخت بندد
نہ گرید، نے سخن گوید، نہ خندد
لیکن بچہ اپنے منھ کو سختی سے بند کر لیتا ہے نہ روتا ہے نہ بات کرتا ہے نہ ہنستا ہے۔
ببیند دایہ را با دیدۂ سر
ولی در دیدۂ دل روی مادر
دایہ کو تو اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھتا ہے مگر اپنی ماں کے چہرے کو اپنی دل کی آنکھوں سے دیکہتا ہے۔
در آخر دایہ گوید بچہ سیر است
نہ محتاج شکر، نے فکر شیر است
آخرش دایہ نے کہا کہ بچہ سیراب ہو چکا ہے نہ اس کو شکر کی ضرورت ہے نہ شیر کی۔
پزشک من ہم، از خاموشی دل
چو آں دایہ، فتد در راہ باطل
میرا طبیب بھی دل کی خاموشی سے اکتا کر اس دایہ کی طرح راہ فرار اختیار کر گیا۔
بمن می گوید این فکر تو سست است
دلت بے اضطراب و تندرست است
اس نے مجھ سے کہا کہ تمہاری یہ فکر بیکار ہے ،تمھارا دل پر سکون اور صحتمند ہے۔
در عالم، تا بہ ایں سنم رسیدم
بہ ایں آسودگی من دل ندیدم
میں دنیا میں اس عمر کو پہنچ گیا میرے دل نے ایسی آسودگی نہیں دیکھی۔
چو کودک بے غم و بے عار باشد
چنیں دل کاشکے بسیار باشد!
جیسے بچہ غمزدہ اور شرم کرنے والا نہیں ہوتا کاش کہ اس طرح کے دل بہت سے ہوتے۔
ز پیشم دور گردد با تبسم
ز تو دل میفتد اندر تلاطم
وہ ہمارے سامنے سے مسکراتا ہوا مجھ سے دور ہو جاتا ہے جس سے میرا دل میں محشر بپا ہو جاتا ہے۔
برائے دیدن آں روئے مہوش
ہمی جوشد چناں دیگے بر آتش
اس چاند سے چہرے کو دیکھنے کے لۓ ہمارا دل آگ میں جلتے ہوۓ دیغ کی طرح جوش مار رہا ہے۔
دوبارہ اشک میریزم چو باراں!
کنوں، بہر خدا، گوئید یاراں
میرے اشک بارش کے قطروں کی طرح دوبارہ بہ رہے ہیں،دوستوں خدا کے لۓ مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں۔
چہ ساں گویم بہ دکتر مشکلم را؟
چہ ساں حالی کنم حال دلم را؟
میں اپنے طبیب کو اپنی مشکل کیسے سمجھاؤں، اپنے دل کا حال کیسے سمجھاؤں؟
- کتاب : Surood-e-Haai-Aazadi-o-Sulah (Pg. 342)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.