Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

اے ز کثرت بر رخ وحدت نقاب انداختی

فضیحت شاہ وارثی

اے ز کثرت بر رخ وحدت نقاب انداختی

فضیحت شاہ وارثی

MORE BYفضیحت شاہ وارثی

    اے ز کثرت بر رخ وحدت نقاب انداختی

    طالباں را زیں حجاب اندر عذاب انداختی

    اے! تو نے وحدت کے اوپر کثرت کا نقاب ڈال دیا

    اس حجاب سے تو نے طالبوں کو عذاب میں ڈال دیا

    چوں مرا دیدی بروئے خود نقاب انداختی

    چہ حجابست ایں کہ خود را در حجاب انداختی

    جب تو نے مجھے دیکھا اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیا

    یہ کیسا حجاب ہے کہ تو نے خود کو پردے میں کر لیا

    گرچہ من مست و خرابم طاعتم را رو مکن

    چوں در ایں کارم بہ امید ثواب انداختی

    گرچہ میں مست و خراب ہوں میری طاعت کو رد مت کر

    چونکہ تو نے مجھے کس کام میں ثواب کی امید میں ڈالا ہے

    از نگہ دزدیدہ دزدیدی متاع جان و دل

    وز دو زلف عنبریں در پیچ و تاب انداختی

    تو نے دزدیدہ نگاہوں سے میری جان و دل کا سرمایہ لے لیا

    تو نے دو معنبر زلفوں سے مجھے پیچ و تاب میں ڈال دیا

    کیست در عالم کہ در دل طالب دیدار نیست

    تخم عشق اندر دل ہر شیخ و شاب انداختی

    دنیا میں کون ہے جسے تمہاری دید کی طلب نہیں ہے

    تو نے عشق کا بیج ہر جوان و بوڑھے کے دل میں بو دیا ہے

    زاں تجلائے صفات تو کہ شد بر کوہ طور

    موسیٰ عمران را در اضطراب انداختی

    تمہاری صفت تجلی جو طور پر جلوہ گر ہوئی

    اس نے موسیٰ عمران کو اضطراب میں ڈال دیا

    عاشق بے باک را باشد چہ خوف از یوم حشر

    دفتر اعمال ما را چوں در آب انداختی

    بیباک عاشق کو روزِ حشر کا کیا خوف

    تو نے ہمارے اعمال کے دفتر کو جب پانی میں ڈال دیا

    آبرویم ریختی در بزم خود کردی خجل

    ایں بط مے پرتکالی را بہ آب انداختی

    تو نے میری آبرو پامال کردی، مجھے اپنی رزم میں رسوا کردیا

    تو نے اس پرتگالی مے کو پانی میں ڈال دیا

    شد فضیحتؔ چوں گدائے کوئے تو در عشق تو

    ایں گدا را از چہ رو در اضطراب انداختی

    جب عشق میں فضیحتؔ تمہارے کوچے کا گدا ہوگیا

    اس فقیر کو تو نے کس لیے اضطراب میں ڈال دیا

    مأخذ :
    • کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 37)
    • مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
    • اشاعت : First

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے