Font by Mehr Nastaliq Web

بے کام و بے زبانم مست الست ہستم

لال شہباز قلندر

بے کام و بے زبانم مست الست ہستم

لال شہباز قلندر

MORE BYلال شہباز قلندر

    بے کام و بے زبانم مست الست ہستم

    بے نام و بے نشانم مست الست ہستم

    میں بے حلق اور بے زبان ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں، میں بے نام و بے نشان ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    در دیکہ پاک زادہ یارم میرا بداوہ

    ساقی بیار بادہ مست الست ہستم

    اے میرے دوست! مجھے سچا درد تو نے ہی دیا ہے، ساتی آ کر مجھے جام دے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    ہم شاہ و ہم گدایم ہم وصل ہم جدائیم

    در دو جہان دایم مست الست ہستم

    ہم شاہ بھی ہیں اور گدا بھی، ہم وصال اور فراق میں بھی ہیں، ہم مدام دونوں جہان میں موجود ہیں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    من مرغ لامکانم جز لامکاں نہ دانم

    بر تخت قدسیانم مست الست ہستم

    میں اب مرغ لامکان ہوں جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں، میں لامکان کے سوا کسی کو میں نہیں جانتا، ملائگی تخت پر قدم ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    مفتاح غیب غیبم بر ترز نقص و عیبم

    در نور پاک زیبم مست الست ہستم

    میں اسرار اور غیب کی چابی ہوں، میں ہر قسم کے نقص اور عیب سے بہت بلند اور برتر ہوں اور میں نور پاک میں زیب و زینت دیا ہوا ہوں کیوں کہ میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    من شاہ پاک بازم و عشقِ اہل رازم

    با حق ہمی بنازم مست الست ہستم

    میں پاک باز شاہ ہوں، عشق میں اہل راز ہوں، حق کے ساتھ ناز کرنے والا ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    ہیجدہ ہزار عالم یکسانند در وصالم

    ایں شد کمال حالم مست الست ہستم

    اٹھارہ ہزار عالم میرے وصال میں یکساں ہیں، یہ میرے حال کی کمالیت ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    رفتم بعرش اکبر خوردم شراب اطہر

    واصل شدم کہ اظہر مست الست ہستم

    میں عرش اکبر پر گیا، میں نے پاکیزہ شراب پی، میں واصل ہوگیا کہ بہت واضح اور روشن ہوگیا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    سرمست می الستم از خیر و شر گذشتم

    نہفتہ سربگفتم مست الست ہستم

    میں مے الست سے بے ہوش ہوں اور خیر و شر سے گذر چکا ہوں، پوشیدہ اور چھپے ہوئے سر کے ساتھ میں نے یہ کہا ہے کہ میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    من ایں زمے بخیزم زاہد کند گریزم

    نوشم و نا ستیزم مست الست ہستم

    میں اسی مے سے طلوع ہوتا ہوں زاہد تو اس شراب سے بھاگتا ہے، میں شراب پیتا ہوں اور جھگڑتا نہیں ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    سلطان با وزیرم دانا و باد بیرم

    در عشق او اسیرم مست الست ہستم

    میں وزراء کے ساتھ بادشاہ ہوں، میں دانا ہوں اور پیش کار بھی باقاعدہ رکھتا ہوں، اسی کے عشق میں گرفتار ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    گہہ شاہ و گہہ گدایم گاہے بخود خدایم

    گنبد رسد ندایم مست الست ہستم

    کبھی بادشاہ کبھی فقیر ہوں، کبھی خود ہی خدا ہوتا ہوں اور گنبد میں یہ آواز گونجتی ہے کہ میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    ہر دو جہاں پرستم زنار کفر ہستم

    مالک مقام ہستم مست الست ہستم

    میں نے دونوں جہاں کی پرستش کی ہے، کفر کا لباس پہن لیا، مستی کے مقام کا مالک ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    راجا کہ نور حقم در ذات محض غرقم

    اندر میاں نہ فرقم مست الست ہستم

    راجا! حق کا نور ہوں، خاص ذات میں محیط ہوں، اندر میں کوئی فرق نہیں رکھتا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    با دوست عہد بستم در دہر شاہ رفتم

    بنگر چہ سخن بگفتم مست الست ہستم

    جب سے دوست سے انجام کیا ہے، میرا ہر ایک درد جاتا رہا ہے، دیکھیں تو سہی کہ میں نے کیا بات کی ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    در پیچ زلف بندم ہر دم ہمی بہ خندم

    بے او گہے نہ زندہ ام مست الست ہستم

    میں زلف کے پیچ میں بندھا ہوا ہوں اور اس پر ہمیشہ ہنستا مسکراتا ہوں، اسی کے بغیر میں ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    جامے از عشق نوشم دنیا و دیں فروشم

    جز ایں دگر نہ گوشم مست الست ہستم

    میں نے عشق کی بدولت جام پیا ہے، گویا دنیا دین کو فروخت کر دیا ہے اس کے سوا دوسری کوئی بات نہیں سنتا، میں مست ہوں۔

    دریائے شراب آرم درد دل فروسپارم

    بے مے بقانہ دارم مست الست ہستم

    میں شراب کا دریا بہا لاؤں اور درد دل اس کے سپرد کردوں گویا میں شراب کے بغیر جی نہیں سکتا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    در کوئے مے فروشاں عشاق جام نوشاں

    افتادہ سینہ جوشاں مست الست ہستم

    مے فروشوں کی گلی میں اور عشاقوں والا جام نوش کروں، کیوں کہ سینے کے اندر جل رہا ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    بائیم عین وحدت آزاد ہم ز کثرت

    باشد نہ ہیچ ملت مست الست ہستم

    ہم ہیں خاص وحدت اسی طرح ہم کثرت سے وحدت بھی ہیں، میں کوئی مذہب وملت نہیں رکھتا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    در روئے خوب رویاں در چشم مست غلطاں

    دیدم جمال سلطاں مست الست ہستم

    حسینوں کے چہروں میں ان کی آنکھوں کی مستی میں ڈوب جاؤں کیوں کہ میں نے حسن کا جلوہ دیکھا لیا ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    زاہد زمے گریزد عابد زمے ستیزد

    سر مست زمے پرستد مست الست ہستم

    زاہد شراب سے بھاگتا ہے، عابد شراب دیکھ کر جھگڑتا ہے جب کہ سرمست شراب کی پرستش کرتا ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    رندان فراغ دستاں در دور مست مستاں

    آئینہ مے پرستاں مست الست ہستم

    آسودگی اور اطمینان کے حامل عاشقان صادق، ازلی شراب کے دور کی وجہ سے مستی اور مدہوشی سے بے خود، جو مے پرستوں کے مظہر ہیں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    جز نام او نہ نام است جز عشق و حرام است

    خبر ایں شرف کدام است مست الست ہستم

    اس نام کے علاوہ کوئی اور نام نہیں ہے، اس کے عشق کے سوا سب حرام ہے، اس شرف سے بڑھ کر کون سی خبر ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    از خویشتن بریدم بر دوست خود رسیدم

    جز عین خود را دیدم مست الست ہستم

    میں نے خود کو بھلا دیا ہے جس کے باعث خود ہی دوست کے پاس پہنچ گیا ہوں اور میں نے بہت کچھ راز پالیا ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    گشتم ز خویش فانی رفتم بدو عیانی

    دیدم بے نہانی مست الست ہستم

    میں نے اپنے فنا ہونے کی سیر بھی کر لی اور میں اس ظاہر سے بھی گذر گیا اور میں نے سب اسرار پوشیدہ کو بھی ظاہر دیکھ لیا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    چوں غیر را شکستم کون و مکان گذشتم

    در لامکاں نشستم مست الست ہستم

    چوں کہ میں نے ہر غیر کو توڑ دیا ہے، میں کون و مکاں سے بھی گے بڑھ گیا ہوں اور اب تو میں لامکاں میں بیٹھا ہوا ہوں، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    آتش ز دل فروزم کونین را بہ سوزم

    ایں سوز شب و روزم مست الست ہستم

    میں اپنے دل کو آتش (عشق) سے جلاتا ہوں، میں اس سے دونوں جہانوں کو بھی جلاتا ہوں اور یہی سوز رات اور دن جاری رہتا ہے، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    در نور دل رسیدم عین العیاں بدیدم

    سریکہ من شتیدم مست الست ہستم

    میں نے دل کا نور حاصل کیا اور میں نے ظاہر ظہور دیکھا اور میں نے اسرار پوشیدہ کو سنا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    شہباز شہسوارم پرواز قدس دارم

    آنجا شکار آرم مست الست بستم

    شہباز شہسوار ہوں، قدسی پرواز رکھتا ہوں، وہیں سے شکار لاتا ہوں، میں اپنی مستی میں مستی ہوں۔

    صحرائے غیب رفتم با شہنشاہ نشستم

    راز یکہ بود گفتم مست الست ہستم

    میں غیب کے صحرا میں گیا، میں شہنشاہ کے ساتھ بیٹھا اور جو خاص راز تھا میں نے کہہ دیا تھا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    دلبر بہ گفت راجا دائم بما تو ایں جا

    با ماتو باش یکجا مست الست ہستم

    محبوب نے مجھ سے کہا کہ اے راجا! تو ہمیشہ یہاں رہ، تو ہمارے ساتھ ایک جگہ ٹھہر جا، میں اپنی مستی میں مست ہوں۔

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان لعل شہباز قلندر (Pg. 108)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے