رقصم بہ گل زار بنوکِ سرخارے
رقصم بہ گل زار بنوکِ سرخارے
اے وائے بہارے اگر اینست بہارے
میں گلشن میں کانٹے کے نوک پر رقص کیا، اے افسوس بہار اگر یہ ہے بہار ہے۔
عاشقِ بسیہ زلف کسی بوسد پیچد
معصوم گرفتست بدستش سرمارے
عاشق کالے بال سے کسے چومے لپٹا، بے گناہ پکڑا ہے اس کے ہاتھ سانپ کا سر۔
اے راہی نادان بعواقب نگہی کن
باقی نہ مزارے نہ کسی زیر مزارے
اے نادان چلنے والے، انجاموں کو دیکھ، کوئی زیارت گاہ باقی نہیں اور نہ کوئی (شخص) مزار کے نیچے۔
اے پیکِ محبت خبرِ سالکؔ خستہ
بارے بحضور شہ خوباں بگذارے
اے محبت کے ارادت مند زخمی سالکؔ کی خبر، کبھی نیکوں کے حضور میں پیش کرے۔
کسی کہ لجّہ بحر غم آشنا نبود
نبرد پیر مغاں لائقِ عطا نبود
جو کوئی کہ غم کے سمندر کے بھنور سے واقف نہ تھا، نہیں لے گیا آتش پرست بوڑھا کہ وہ عطا کے قابل نہ تھا۔
تو در گذر زغمِ نان و غمِ عشق بخور
اسیر بندِ شکم بندۂ خدا نبود
تو آگے بڑھ روٹی کے غم سے اور عشق کا غم کھا، پیٹ کی زنجیر کا قیدی خدا کا بندہ نہ تھا۔
اساسِ قعر مذلت تمامتر باشد
امیریٔ کہ درد فقر مرتضیٰ نبود
ذلت کے گڑھے کی بنیاد مکمل ہوگئی، مالداری کہ محتاجگی کے درد سے راضی کیا ہوا نہ تھا۔
بکنہ معنیٔ عرفاں نمی رسد سالکؔ
بمعرضی کہ زباں ذاکر انا نبود
معرفت کے معنی کی حقیقت تک سالکؔ نہیں پہنچا، عرض کرنے کی جگہ میں ذاکر کی زباں پر ’انا‘ نہ تھا۔
- کتاب : خمار (Pg. 62)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.