یا رب ایں بوئے کہ امروز بہ ما می آید
از سر اسرار خدا می آید
اے خدا یہ خوشبو جو مجھ تک آ رہی ہے
یہ اسرار خدا کے پردے سے آ رہی ہے
بوستاں را کرمش خلعت نو می بخشد
خستگاں را ز شفاخانہ دوا می آید
اس کا کرم ہی باغ کو نئی خلعت بخشتا ہے
بیماروں کے لیے دوا اسی شفا خانے سے آتی ہے
در نماز اند درختاں و بہ تسبیح طیور
در رکوعست بنفشہ کہ دوتا می آید
درخت نمازیں ادا کرتی ہیں اور پرندے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں
اور بنفشہ رکوع میں ہے اسی لیے وہ جھکی نظر آتی ہے
ہر چہ آمد سوئے ہستی رہ ہستی گم کرد
کہ ز مستی نشناسد کہ کجا می آید
جسے وجود مل جاتا ہے اسے اپنےوجود کا راستہ معلوم نہیں ہوتا
مستی میں اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے آیا ہے
رنگ او یافت ازاں روئے چنیں خوش رنگست
بوئے او یافت کزو بوئے وفا می آید
اسے اس کے چہرے سے ہی رنگ ملا ہے اس لیے اتنا حسین ہے
اسے خوشبو اسی سے ملی ہے، اس لیے اس میں وفا کی خوشبو ہے
نے بگویم ز ملولے کسے غم نخورم
کہ شکر رشک برد زانچہ مرا می آید
میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے کسی کے لیے دکھ نہیں ہوتا
مجھے اس میں ایسی لذت مل رہی ہے کہ شکربھی اس پر رشک کرتا ہے
بس کن اے دوست ز سنبوسہ چہ بسیار خوری
کہ ز سنبوسہ ترا بوئے گیا می آید
اے دوست اب اتنے سموسے مت کھا
اس لیے کہ اس سموسے سے گھاس کی خوشبو آ رہی ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 289)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.