نگارے را کہ می جویم بجانش
نمی بینم میان حاضرانش
میں جس محبوب کو جان و دل سے تلاش کر رہا ہوں
میں اسے حاضرین کے درمیان نہیں دیکھتا
کجا رفت او میان حاضراں نیست
دریں مجلس نمی یابم نشانش
وہ کہاں گیا کہ حاضروں کے درمیان نہیں ہے
اس مجلس میں اس کا نام و نشان نہیں ہے
مسلماناں کجا شد آں نگارے
کہ می دیدیم چو شمع اندر میانش
اے مسلمانو وہ محبوب کہاں گیا
جسے ہم شمع کی طرح اپنے اندر دیکھا کرتے تھے
بگو نامش کہ ہر کہ نام او گفت
بوقت مرگ شیریں شد دہانش
مجھے اس کا نام بتاؤ کہ جس نے موت کے وقت
اس کا نام لیا اور اس کا منہ شیریں ہوگیا
ز رویش شکر گویم یا ز مویش
کہ چاکر شد بدیں ہر دو جہانش
میں اس کے چہرے کا شکر ادا کروں یا اس کے مو کا
کیوں کہ دونوں جہان ان دونوں چیزوں کا غلام ہے
زمینش گر نمی بیند عجب نیست
کہ می گردد دریں عشق آسمانش
اس کی زمین اگر نظر نہ آئے تو کوئی بات نہیں
کیوں کہ اس عشق میں اس کا آسمان گردش کرتا ہے
مگو القاب شمس الدینؔ تبریز
مدار از گوش مشتاقاں نہانش
شمس الدین تبریز کو القاب سے مت یاد کرو
شائقین کے کانوں سے اسے بچاکر رکھو
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 410)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.