ندانم تا چہ خوردستم من امروز
کہ بس آشفتہ و مستم من امروز
مجھے نہیں معلوم کہ آج میں نے کیا کھا لیا
آج میں کیوں بہت زیادہ پریشان اور مست ہوں
برغم زاہداں در کوئے خمار
بکام عشق بہ نشستم من امروز
اس کی زلف میں میرا ایک ہی دل ہے لیکن میں نے سیکڑوں جان
اس کے ہر ایک بال میں باندھ رکھا ہے
ولے دارم بزلفش لیک صد جاں
ز ہر مویش بر بستم من امروز
جیسے مچھلی اچانک کانٹے میں پھنس جاتی ہے
میں بھی ویسے ہی آج جال میں گرفتار ہوگیا ہوں
چو ماہی کوفتد در شست ناگہہ
فتادہ اندروں شستم من امروز
توحید کی خالص شراب کے ایک جام کے لیے
میں نے آج ہزاروں توبہ توڑ دیا
بیک ساغر شراب ناب توحید
ہزاراں توبہ بشکستم من امروز
میں دونوں جہان یہاں تک کہ خود سے کٹ گیا
میں آج اپنے دوست کے وصل سے سرفراز ہوگیا
ز خود بگسستم و از ہر دو عالم
بہ وصل دوست پیوستم من امروز
میں شمس سے پوری عمر پریشان تھا
میں آج اس پریشانی سے نجات پا گیا
ز شمسؔ آشفتہ می بودم ہمہ عمر
دراں آشفتگی رستم من امروز
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 417)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.