مزہ دیتے ہیں کیا یار تیرے بال گھونگھر والے
دلچسپ معلومات
دادرۂ اشفاق
مزہ دیتے ہیں کیا یار تیرے بال گھونگھر والے
ایسا زلفوں کا ہے جال
جس نے کھینچی دل کی کھال
ہے یوں جاں کو ایک جنجال
تیرے بال ہیں گھونگھر والے
پرسوں دل کو غم کھلوائے
لاکھوں اس نے تیر چلائے
عاشق ہوش نہ لینے پائے
بانکی چتون کو سمجھائے
مزہ دیتے ہیں کیا یار تیرے بال گھونگھر والے
جب سے ہوئی ہے تیری دوری
ایسی حالت ہے مجبوری
رنگت رخ کی ہے کافوری
طوفاں بنے ہوئے ہیں نالے
مزہ دیتے ہیں کیا یار تیرے بال گھونگر والے
تیری ابرو ہے وہ قاتل
جس نے کئے ہزاروں گھائل
تیری ادا ایسی ہے بسمل
جس سے لاکھوں ہیں متوالے
مزہ دیتے ہیں کیا یار تیرے بال گھونگر والے
ہوں یوں قیدِ غم میں قید
جیسے عمر کا ساتھی زید
مرغِ دل ہے اپنا صید
کس صیاد کے ہوں میں پالے
مزہ دیتے ہیں کیا یار تیرے بال گھونگھر والے
تیری دید کا ہے مشتاق
تیری فرقت اب ہے شاق
تیری یاد کا ہے مشاق
کب تک کھائے غم کے بھالے
مزہ دیتے ہیں کیا یار ترے بال گھونگھر والے
- کتاب : Guldasta-e-Qawwali (Pg. 13)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.