یوں چمکتا تھا رخ آل پیمبر دھوپ میں
یوں چمکتا تھا رخ آل پیمبر دھوپ میں
شک یہ ہوتا تھا ہے کوئی مہر انور دھوپ میں
گرمیاں کیوں کر نہ دکھلاتا عدوے سنگ دل
قاعدہ ہے گرم ہو جاتا ہے پتھر دھوپ میں
دوپہر کو نور چہروں پر یہ مظلوں کے تھا
شک یہ ہوتا تھا کل آئے ہیں اختر دھوپ میں
رنگ گرمی کے سبب رخسارِ قاسم کا یہ تھا
جس طرح پژمردہ ہوجائیں گل تر دھوپ میں
پیاس سے جو خشک تھی معصوم اصغر کی زباں
مچھلیاں بیتاب تھیں دریا کے اندر دھوپ میں
خون سے دن کو زمینِ کربلا کا تھا یہ رنگ
جس طرح کوئی بچھا دے سرخ چادر دھوپ میں
بچ گیا کیونکر خدا یا دامن چرخ کہن
دشت کی ریگِ رواں تھی مثل اخگر دھوپ میں
جذب کر جاتی زمین کر بلا گرمی وہ تھی
نوح کا طوفاں بھی گر آتا مکرر دھوپ میں
سایۂ شمشیر میں دم بھر جو دم لیتے نہ تھے
پاؤں پھیلائے ہوئے سوئے ہیں کیوں کر دھوپ میں
گرمئ خورشید کا دریا پہ بھی یہ تھا اثر
جل رہی تھی شعلہ ساں پانی کی چادر دھوپ میں
عرشؔ رو رو کر لکھی ہے حالت آلِ عبا
کر دے اک طوفاں بپا رکھ دوں جو دفتر دھوپ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.