افعالِ الٰہی
جملہ افعال الٰہی آثار ہیں قدرتِ الٰہی کے۔ اور جملہ افعال وہ جزوی ہوں خواہ کل حقیقۃً حق تعالیٰ ہی کی طرف منسوب ہیں۔ مگر جزویات بوجہ اپنی احتیاج اور ضرورت کے اور بلحاظ اپنے ظہور ِ دفعاتی کے زمانہ سے متعلق ہیں۔ ا س لئے جزویات تدبیر کی جہت سے بندے کی طرف منسوب ہیں۔ اور کلیات تقدیم کی جہت سے حق تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں۔ یَفعَلُ مَا یَشَآءُ وَیَحکُمُ مَا یُرِیدُ (کرتاہے جو چاہتاہے اور حکم دیتا ہے جس کا کہ ارادہ کرتا ہے)
انسان اپنے فعل کو عمل میں لانے کےلئے مادّہ ،مدت، آلہ ،غرض، مقصد، قوت اور حرکت کا محتاج ہے۔ مگر حق تعالیٰ مادہ، مدت، آلہ، حرکت وغیرہ سب کا خالق ہے اور افعال میں ان جملہ اسباب سے مستغنی ہے۔ مثلا انسان کو ایک صندوق بنوانے کی ضرورت ہے تو اسے لکڑی اور لوہے کی ضرورت پیش آئے گی۔ پھر وہ ایک بڑھئی یا کاریگر کا محتاج ہوگا۔ پھر اس کاریگر کے لئے آلات اور اوزار کی ضرورت ہوگی۔ پھر ایک نمونہ ذہن میں اور خارج فی الذہن ہونا چاہئےجس کے مطابق وہ صندوق بنایا جائے۔ پھر کاریگر اپنی قوت اور اپنا وقت صندوق کے بنانے پر صرف کرے گا اور اپنے ہاتھوں کو حرکت میں لائے گا اور محنت ومشقت کرے گا۔ کاریگر اجرت کا خواہشمند تھا جس کے حصول کی لالچ اور کوشش میں اس نے اس مشقت کو گوارا کیا۔ حق تعالیٰ ان اسباب میں سے کسی کا بھی حاجت مند نہیں۔ وہ بغیر اسباب کے جو چاہتاہے پیدا کرتاہے۔ اس نے اپنی قدرت کا بھی اظہار فرمایا اور اپنی حکمت عملی کا بھی قدرت کے اظہار کے لئےتو اس نے جو چاہا بلا اسباب کے پیدا کردیا۔ اور حکمت کے اظہار کے لئے اس نے مادّہ پیدا کیا، آلہ بنایا، زمانہ پیدا کیا، حرکت پیدا کی اور ان کو اسباب قرار دے کر جن اشیاءکو چاہاان اسباب کے ذریعہ پیدا کیا مگر حقیقۃً خود ہی ہر چیز کا فاعل ہوا۔
افعالِ الٰہی کے کئی مرتبہ ہیں:۔
ابداع:۔ پہلا مرتبہ ابداع ہے ۔ ابداع کہتے ہیں بغیر واسطہ یا وسیلہ کے کسی چیز کے پیدا کرنے کو جیسے کہ اس نے عقل اوّل کو بلا کسی واسطہ ایجاد کیا۔ انسان میں یہ قدرت نہیں۔
خلق:۔ دوسرا مرتبہ خلق کا ہے۔ یعنی ایک واسطے سے دوسری چیز پیدا کرنا جیسے کے حق تعالیٰ نے بلاواسطہ اور بلاکسی وسیلہ کے عقل اوّل کا ابداع فرمایا۔ پھر عقل اول کے وسیلہ سے نفسِ کل کو خلق فرمایا۔
صنعت:۔ تیسرا مرتبہ صنعت کا ہے جو خلق کے بھی نیچے ہے۔ پھر صنعت بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ترتیب دے دی جائےیا اس کی صورت میں کوئی تبدیلی کردی جائے۔ جیسا کہ نجّاری، خیّاطی، نوربافی وغیرہ میں ہوتاہے۔ اس قسم کی صنعت میں اسمِ صانع بندہ اور خدا کے درمیان مشترک ہے۔ جب بندہ کسی چیز کو بنائے گا تو اسے خالق نہ کہاجائے گا بلکہ صانع کہاجائےگا۔ اس اشتراک اسمِ صانع سے وہ اشتراک مراد نہیں جو مستلزمِ شرک ہے بلکہ یہ ایک اصطلاحی استعمال ہے اور اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صنعت کا بندہ پر ایسا پر توڈالا ہے کہ بندہ بھی اپنے محدود دائرہ میں خدا کی دی ہوئی اس قوت سے صنّاعی کا کام لے سکتاہے۔ دوسری قسم صنعت کی یہ ہے کہ کسی چیز کو ایجاد کیا جائے اور اسے عدم سے وجود میں لایا جائے۔ یہ بات خدا ہی کے لئے مخصوص ہے۔ صُنعَ اللہِ وَاللہُ صَانِعُ کُلِّ شَئیٍ۔ اس صورت میں صانع کے معنی خالق اور صنع کے معنی خلق کے ہوں گے۔ فَتَبَارَکَ اللہُ اَحسَنُ الخَالِقِین۔
فعل:۔ چوتھا مرتبہ افعالِ الٰہی کا وہ ہے جسے عام طورپر فعل کہتے ہیں۔ یہ مرتبہ صنع کے قریب مگر اس سے کسی قدر نیچا ہے کیونکہ صانع کو تو کبھی فاعل کہہ بھی دیتے ہیں مگر فاعل کو صانع کبھی نہیں کہتے۔
عمل:۔ فعل سے نیچے عمل کا مرتبہ ہے۔ فاعل خود مختار ہوتاہے لیکن عامل خود مختار نہیں ہوتا بلکہ فاعل کا مطیع ہوتاہے۔ ھُوَالقَاھِرُ فَوقَ عِبَادِہ ۔(وہی قاہر ہے اپنے بندوں پر) درحقیقت فاعل خداوند تعالیٰ ہے۔ اور عامل اس کی عبادت کرنے والا اور اس کا مطیع بندہ ہے۔ صنع اور فعل لوازماتِ ربوبیت سے ہیں اور خلق اور ابداع ملحقاتِ الٰہیت سے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.