Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

امانت

جو بار آسمان و زمیں سے نہ اٹھ سکا

تو نے غضب کیا دلِ شیدا اٹھالیا

وہ بارِ امانت جس کے متحمّل ہونے کی صلاحیت آسمان و زمین نے اپنے میں نہ پائی، جس کی تاب پہاڑ نہ لاسکے، جو بوجھ نہ صرف آسمان بلکہ آسمان والوں سے بھی نہ اٹھ سکا حضرت انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا وہ ظہورِ وجود ہے۔ ظہورِ وجود یعنی ظہور ذات مع الاسماء والصّفات کا حامل صرف انسانِ کامل ہے۔ ذات و اسماء و صفات کے پَر تو کی قبولیت کی استعداد و صلاحیت صرف انسانِ کامل ہی میں پائی گئی۔

اِنَّا عَرَضنَا الاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰواتِ وَالارضِ وَالجَبَالَ فَاَبَینَ اَن یَّحمِلنَھَا وَ اَشفَقنَ مِنھَا وَ حَمَلَھَا الاِنسَانُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوماً جَھُولاً*۔ (الاحزاب۔ ع ۹)

تحقیق روبرو کیا تھاہم نے امانت کو اوپر آسمانوں اور زمین کے اور پہاڑوں کے پس انکار کیا سب نے اس سے کہ اٹھاویں اس کو اور ڈر گئے اس سے اور اٹھالیا اس کو انسان نے تحقیق وہ تھاظلومی اور جہولی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اور ان میں کے رہنےوالوں نے اسے قبول نہ کیا۔ ہم ایک کثیف دیوار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے چہرہ کو اس پر عرض کرتے ہیں، یعنی اس کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر وہ دیوار ہمارے چہرہ کے عکس کو قبول نہیں کرتی۔ ہم اسے ایک لطیف اور شفاف آئینہ کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن وہ بھی پر توکو قبول نہیں کرتاہے۔ پھر ہم اپنے چہرہ کو ایک ایسے آئینہ کے سامنے پیش کرتے ہیں جو ایک طرف سے تو نہایت اجلاصاف اور چمکدار ہے اور دوسری طرف اس کے زنگار لگی ہوئی ہے، تو وہ فوراًاسے قبول کرلیتاہے اور ہمارے چہرہ کا عکس اس میں نہایت صفائی اور سچائی کے ساتھ آجاتاہے۔ قبول کرلینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ آئینہ زنگاری میں عکس کے نمایاں ہونے کی صلاحیت ہے جس کا اظہار اس نے ہمارے چہرہ کے سامنے آتے ہی کردیا۔ شفّاف آئینہ یا دیوار میں یہ صلاحیت نہ تھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے پر تو کو نہ آسمان نے قبول کیا نہ آسمان والوں نے کیونکہ وہ مثل شفاف آئینوں کے تھے۔ اور نہ زمین اور زمین والوں اورپہاڑ اورپہاڑ کی چیزوں نے اسے قبول کیا کیونکہ وہ مثل شفّاف آئینوں کے تھے۔ اور نہ زمین اور زمین والوں اور پہاڑ اور پہاڑ کی چیزوں نے اسے قبول کیا کیونکہ وہ مثل کثیف دیوار تھیں۔ انسان نے اسے فوراً قبول کرلیا کیونکہ انسان مثل آئینۂ زنگاری کے ہے ۔ اس کی ایک جانب لطافتِ ملکوتی ہے اور دوسری جانب کثافتِ حیوانی۔ ایک جانب وجود کانور ہے اور دوسری جانب عدم کی ظلمت۔ ایک جانب علم کی روشنی ہے اور دوسری جانب جہل کی تاریکی۔ اس جامعیت نے انسان کو اس قابل بنا دیا کہ امانتِ جامعیتِ ذات و صفات کو اٹھالے:

آسمان بارِ امانت نتوانست کشید

قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند

(حافظ)

ظَلُوماً جَھُولا سے یہی مرادہے کہ انسان میں اس بارِ گراں کے تحمل کی استعداد تھی۔ ظلومی سے یہاں مراد ظلم نہیں بلکہ ظلمت ہے۔ ظلمت ضد ہے نور کی۔ تخلیقِ کائنات میں انسان سب سے آخری مخلوق ہے۔ تنزلات کا یہ انتہائی مرتبہ ہے۔ انسان کے بعد کوئی چیز پیدا نہیں ہوئی۔ اس لئے اس کے ایک جانب ظلمتِ عدمی ہے۔ جہل بھی تاریکی ہے جو ضد ہے علم کی اور علم نور ہے۔ اس ظلمت وجہل نے زنگار کا کام دیا اور انسان نے الٰہیت کے پر تو کو قبول کرلیا:

لطافت بے کثافت جلوہ پید اکرنہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینہ بادِ بہاری کا

انسان جہول اس حیثیت سے بھی ہے کہ وہ غیرِ حق سے جاہل ہے بوجہ معرفتِ تامہ کے جو کہ نتیجہ ہے جامعیت کا وہ ماسوائے سے رو گرداں ہے اور ہر چیز کو حق کی جانب سے پہچانتاہے اور حق ہی کی روشنی سے دیکھتاہے اور مراتبِ ممکنات کو اعتباری جانتاہے۔ تو ظلوماً جہولا گویا ذم کے پردہ میں انتہائی درجہ کی مدح ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے حق میں فرمائی ہے:

ظلومی وجہولی ضدِّ نوراند

ولیکن مظہرِ عین ظہور اند

چوپشتِ آئینہ باشد مکدّر

نماید روئے شخص از عکسِ دیگر

شعاعِ آفتاب از چارم افلاک

نگردد منعکس جز برسرِ خاک

توبودی عکسِ معبودِ ملائک

وزاں گشتی تو مسجودِ ملائک

تو مغزِ عالمی زاں درمیانی

بداں خود راکہ تو جانِ جہانی

جہان وعقل و جاں سرمایۂ تست

زمین و آسماں از سایۂ تست

بزرگاں اندریں گشتند حیراں

فرو ماندند از تشریح انساں

نبردہ ہیچ کس رہ سوئے ایں کار

بعجزِ خویش ہر ایک کردہ اقرار

ازاں دانستہ تو جملہ اسماء

کہ ہستی صورتِ عکس مسمّا

ظہورِ قدرت و علم و ارادت

بہ تست اے بندۂ صاحب سعادت

سمیعی وبصیری حیّ و گویا

بقا داری نہ از خود بل از آنجا

زہے اوّل کہ عینِ آخر آمد

زہے باطن کہ عینِ ظاہر آمد

تو از خود روز و شب اندر گمانی

ہماں بہتر کہ تو خود را بدانی

جب یہ سمجھ لیا گیا کہ وہ امانت کیاہے جس کا انسان حامل ہے تو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ امانت ہمیشہ پرائی ہوا کرتی ہے۔ امین کو حق حاصل نہیں کہ وہ پرائی امانت میں اپنا کوئی ذاتی تصّرف کرے۔ مالکِ امانت کی مرضی کے مطابق اس امانت کا استعمال تو جائزہ ہوگا مگر مالک کی مرضی کے خلاف اسے استعمال میں لانا صریح خیانت ہوگی۔ پرائی چیز کو اپنا سمجھ لینا انتہائی درجہ کی حماقت ہے۔

امانت کے استعمال کرنے اور نہ کرنے کے متعلق امانت کے آقا کی جانب سے جو ہدایات صادر ہوئی ہیں انہیں شریعت کہتے ہیں۔ امانت کے جائز اور ناجائز اور مفید وغیر مفید اور ضروری وغیر ضروری استعمال کا علم حاصل کرنے کے لئے علمِ شریعت کا جاننا ضروری ہے۔ اور خیانت کے الزام سے بچنے اورا مانت کی کما حقہٗ حفاظت کے لئے شریعت کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ جب تک شرعیت کا حق نہ ادا کیا جائے ذات و صفات کی مظہریت کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ زینہ ہے جس کے بغیر عروج کی انتہائی منزلوں تک رسائی محال ہے۔

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے