Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

انا

جسم ِآدم میں ایک مضغہ ہے۔ اس مضغہ میں فواد ہے۔فواد میں روح ہے۔ روح میں سّر ہے۔ سّر میں خفی ہے۔ خفی میں اخفا ہے اور اخفا میں اناہے۔

اس انا سے اشارہ ہے ذاتِ مطلق کی جانب ۔بندہ میں جو انانیت ہے وہ انائے حقیقی کی آوازِ بازگشت ہے:

زمہر ش سینہ ہا جو لانگہِ برق

دلِ ہر ذرّہ در جوشِ انا الشرق

ہر چیز جو عبد سے متعلق ہے حقیقتاً حقیقتِ عبد سے منسوب ہے اور حقیقتِ عبد کی اصل ذاتِ مطلق ہے۔ خواہ وہ تعین روحانی میں متعین ہو خواہ تعینِ جسمانی میں ۔ خواہ اطلاق کی حیثیت سے اس پر نظر ڈالی جائے خواہ تقید کے اعتبار سے۔ انا کی حقیقت وہی مطلقہ واحدہ ہے جو بحسبِ اختلافاتِ مختلفہ عباراتِ مختلف میں ظاہر کی جاتی ہے۔ مثلاً من و تو وھو حقیقت ایک ہی ہے جو باعتبار تعینّات اعتباری من وتو ہے اور بلحاظ اطلاق ھو ہے:

حقیقت کز تعیّن شد معیّن

تو اورا در عبارت گفتۂ من

من و تو عارضِ ذاتِ وجودیم

مشبّکہائے مشکوٰۃِ وجودیم

ہمہ یک نور داں اشیاء و ارواح

گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح

عامی سمجھتاہے کہ من سے مراد میرا جسم ہے۔ حکیم سمجھتاہے کہ اس سے روح مراد ہے لیکن اہل کشف جانتاہے ہے کہ من سے نہ تنہا یہ مراد ہے نہ تنہا وہ۔ بلکہ وہ حقیقت مراد ہے جو شامل ہے تمام حقائق و ہویّات پر۔ روح ہو یا بدن سب کچھ اسی حقیقت کے مظاہر ہیں۔ دراصل من سے مراد ہے ذاتِ واحد، اعم از جسم و جان کیونکہ جسم و جان گویا اجزاء ہیں اس حقیقت کے جو تعینات کے ہر فرد میں من سے معبّر ہے تنہا انسان اس سے مخصوص نہیں:

من و تو بر ترا از جان و تن آمد

کہ ایں ہر دوز اجزائے من آمد

بلفظِ من نہ انسان است مخصوص

کہ تاگوئی بداں جانست مخصوص

یکے رہ بر تراز کون ومکاں شو

جہاں بگذر وخود در خود جہاں شو

جب عارف انا کا استعمال کرتاہے تو اس کی مراد ہوتی ہے وجودِ خارجی کی انانیت متعین باعتبارِ مرتبۂ ذاتیہ۔ پس وہ انانیت حق تعالیٰ کی خبر دیتی ہے۔ اور حق کی جانب سے ہوتی ہے کیونکہ عارف حق تعالیٰ میں فانی ہوتاہے۔ وہ ھوالحق کہے یا انا الحق ،تعبیر اس کی ایک ہی حقیقت ہوتی ہے۔ تعین کے دور کردینے سے انا اور ھو ہم معنیٰ ہو جاتے ہیں:

قم باذنی و قم باذن اللہ

ہر دویک نغمہ آمد از لبِ یار

صاحب گلشن راز فرماتے ہیں:

درآ وادیٔ ایمن کہ ناگاہ

درختے گویدت انّی انا اللہ

روا باشد انا اللہ از درختے

چرانبود روا از نیک بختے

ہر آنکس را کہ اندر دل شکے نیست

یقیں داند کہ ہستی جزیکے نیست

انا نیّت بود حق را سزاوار

کہ ہو غیب است و غائب وہم وپندار

جنابِ حضرتِ حق را دوئی نیست

دراں حضرت من وماؤ توئی نیست

من وماؤ تؤ اوہست یک چیز

کہ در وحدت نباشد ہیچ تمییز

ہر آنکو خالی از خود چوں خلاشد

انا الحق اندر او صوت وصد اشد

شوَد باوجہ باقی غیر ہالک

یکے گردد سلوک وسیر و سالک

لیکن جب جاہل انا کا استعمال کرتاہے تو اس سے اس کی مراد انانیتِ روحِ عبد سے ہوتی ہے اورآوازِبازگشت کو صدائے اصلی سمجھتاہے۔

چونکہ پہلا تنّزل انا میں ہوا ہے اس لئے لفظ انا سے کبھی تعینِ اوّل کی جانب اشارہ کیا جاتاہےاور تعین اوّل مقامِ محمدّی ہے۔

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے