Sufinama

احصائے اسماء

رسولِ خداؐ سے مروی ہے کہ

اِنَّ للہِ تَعَالیٰ تِسعَۃ وَّ تِسعِینَ اِسماً مِائَۃ اِلَّا وَاحِدَۃ مَن اَحصَاھَا دَخَلَ الجَنَّۃَ (الترمذی)

یعنی اللہ تعالیٰ کے ننانوے(۹۹) یعنی ایک کم سو نام ہیں جس نے ان کا احصا کرلیا وہ جنت میں جائے گا۔

احصائے اسماء سے مراد ہے اسماء حق تعالیٰ سے متحقق ہونا، صفاتِ الٰہی سے موصوف ہونا، اخلاقِ الٰہیہ کا خوگر بننا اور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے اپنے باطن کو آراستہ کرنا ہےجو شخص اسماء باری تعالیٰ سے صرف اسی قدر بہرہ یاب ہے کہ ان اسماء کو اس نے صرف ملفوظی حیثیت سے سن لیا ہے اور کتابوں میں ان کی تشریح پڑھ لی ہے اور دل میں یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں ان اسماء کے معنی موجود ہیں، اس کو ان اسماء سے سب سے کم حصہ ملا۔ اور اس کے اس سرمایہ ٔ علمی کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس شخص کی اصلی کامیابی کا باعث ہوسکےکیونکہ صرف الفاظ کا سن لینا اس کی قوت سامعہ کی سلامتی کی دلیل ہوسکتاہے۔اور یہ ایک ایسا مرتبہ ہے جس میں چوپائے بھی اس کے ساتھ شریک ہیں۔ اسماء کے لغوی کو سمجھ لینا زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کردے گا کہ وہ شخص عربی بھی جانتاہے اور یہ بھی ایک ایسا مرتبہ ہے جس میں ایک لغت داں ادیب یا جاہل عرب اس کا ہم مرتبہ ہے۔ اب اگر ان امور کے ساتھ اسے یہ اعتقاد بھی ہے کہ ان اسماء کے معنی اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں لیکن یہ اعتقاد کشف و تحقیق کے بغیر ہو تو اس مرتبہ میں بھی وہ عوام بلکہ ایک مسلمان بچہ کے ہم پلہ ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو اول الذکر دونوں جماعتوں پر ترجیح ہے لیکن اس میں مطلق شبہ نہیں کہ یہ ترجیح یا فضیلت اس کو معراج کمال پر پہنچانے کے لئے کسی طرح کافی نہیں۔ حَسَنَاتُ الاَبرَارِ سَیِّئاتُ المُقَرَّبِینَ جو باتیں کہ نیک لوگوں کے لئے نیکیاں محسوب ہوتی ہیں وہ مقربین کے لئے جن کا مرتبہ بلند تر ہے برائیوں کی حدودسے تجاوز نہیں کرتیں۔ نیکی اور بدی اعتباری الفاظ ہیں جو باتیں کہ نیچے کے درجے والوں کے لئے مستحسن ہیں وہ اوپر کے درجے والوں کے لئے اس طرح مستحسن نہیں ہوسکتیں۔مقربین کی شان اس کی مقتضی ہے کہ اسماء وصفاتِ الٰہی سے وہ ان دوامور کو حاصل کریں۔

ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا عرفان انہیں کشف و شہود کی راہ سے حاصل ہو۔ علم الیقین سے عین الیقین اور عین الیقین سے حق الیقین تک سالک اسی راہ سے پہنچتا ہےاور صفات الٰہیہ سے اللہ تعالیٰ کا موصوف ہونا اس پر اس درجہ منکشف ہوجاتاہے جیسے کہ خود اپنے صفات سے اس کا موصوف ہونا اُس پر عیاں ہوتاہے لیکن اسماء و صفاتِ الٰہی کا عرفان اسے اجمالی طورپر ہوتاہے نہ کہ تفصیلی طورپر۔ اور اسی عرفان کی کمی وبیشی پر عارفوں کے مراتب کا متفاوت ہونا موقوف ہوتاہے۔ اسماء و صفات ہی کے ا ز روئے تحقیق ومکاشفہ جاننے والے کو عارف کہتے ہیں۔ اور ذات کے عارف کو موحد کے نام سے پکارا جاتاہے۔ عارف کے اعتقاد میں جو کہ حق الیقین کے مرتبہ پر فائز ہے اور اس شخص کے اعتقاد میں جس نے والدین کی تربیت اور استادوں کی تعلیم سے بطور تقلید کے اعتقاد حاصل کیا ہو، زمین و آسمان کا فرق ہے

الٰہی دیدۂ تحقیق دہ ہر یک مقّلدرا

چو عینک تابکے ہر سو بچشمِ دیگراں بیند

(درد)

دوسرے یہ کہ تَخَلَّقُوا بِاَخلَاقِ اللہِ ۔

اللہ تعالیٰ کے اخلاق کی پیروی کی جاوے۔

اس کے اسماء و صفات کے انور سے اپنے باطن کو آراستہ وپیراستہ کر کے بقدرِ امکان بشری قرب الٰہی حاصل کیا جاوے ۔قربِ الٰہی مشابہتِ صفاتی سے حاصل ہوتاہے۔ قربِ مکانی اور بعدِ مکانی کو اللہ اور بندے کے درمیان کوئی دخل نہیں چونکہ مشابہت صفاتی میں کمی وبیشی ممکن ہے۔ قرب الٰہی میں بھی اختلافِ مدراج کا ہونا یقینی ہے۔

موجودات بلحاظ حیات کے تین درجوں میں منقسم ہے۔ پہلا درجہ ملائکہ کاہے، دوسرا انسان کا ہے اور تیسرا بہائم کا۔ زندگی کے صحیح مفہوم کو پیشِ نظر رکھ کر حیات کے نقص وکمال کے متعلق اندازہ کرنے کے لئے زندہ چیز کی عقل اور اس کی قوت مدر کہ اور جو افعال اس سے سرزد ہوتے ہیں ان پر نظر ڈالی جاتی ہے۔اس معیار سے بہائم کی زندگی سب سے زیادہ ناقص اور ملائکہ کی زندگی سب سے زیادہ کامل اور انسان کا مرتبہ ان دونوں کے مابین ہے۔ بہائم کا ادراک ناقص یوں ہے کہ ان کے حواس ناقص ہیں اور ان کے آلاتِ حس اپنے افعال میں نہایت درجہ محدود ہیں۔ ان کے افعال تابعِ شہوت وغضب ہوتے ہیں اس لئے ناقص ہیں۔ اور چونکہ عقل و قوت امتیازی سے وہ معرا ہیں شہوت و غضب کو روکنے یا ان میں اعتدال پیدا کرنے سے بھی وہ قاصر ہیں۔ ملائکہ قوت ادراکیہ میں تینوں اقسام میں سب سے اعلیٰ ہیں۔ قرب و بعد کی چیزوں کا یکساں طور پر ادراک کرتے ہیں بلکہ ان کا ادراک ان اشیاء تک پہنچتاہے جو قرب و بعد کے تقید سے آزاد ہیں۔ قرب و بعد ان ہی اشیاءمیں متصور ہوتاہے جو اجسام ہیں اور اجسام موجودات میں خسیس ترین چیزیں ہیں۔ پھر ملائکہ شہوت وغضب کے مقتضیات سے پاک ہیں۔ ان کے افعال کی محرک وہ چیزہے جو شہوت و غضب سے بہت برتر ہے اور وہ قرب الٰہی کی طالب ہے۔ انسان مرکب ہے بہیمیت اور ملکوتیت سے ۔ ابتدا میں اس پر بہیمیت کا غلبہ ہوتاہے۔اس وقت وہ بیشتر اپنے حواس ہی میں مقید رہتاہے۔ اور وہ اپنی حس و حرکت سے محسوسات ہی کا قرب تلاش کرنے پر قناعت کرتاہے۔ جب وہ اس مرتبہ سے ترقی کرتاہے تو عقل کا نور ا س میں چمکتاہے اور اس نور کا یہ اثر ہوتاہے کہ بلا حرکتِ بدنی عالمِ بالا میں تصرف کرنے لگتاہے اور ان امور کا ادراک کرنے لگتاہے جو قرب وبعد مکانی سے بر تر اور ماورا ہیں۔ حرص و ہوا اورشہوت وغضب کے تنگ و تاریک کوچہ سے اسے آزادی ملتی ہے۔ عاقبت بینی اور طلب کمال کی اس میں رغبت پیدا ہوتی ہے اور فرشتوں کے ساتھ اسے ایک قسم کی مشابہت ہوجاتی ہے۔ جب اس کا نفس خیالات و محسوسات کو ترک کرکے ان امور کے ادراک سے مانوس ہوجاتاہے جو حس و خیال سے بالا تر ہیں تو فرشتوں کے ساتھ اس کی مشابہت اور بھی ترقی کرتی ہے۔ان اوصاف میں وہ جیسی جیسی ترقی کرتاہے جاتاہے بہیمیت سے اس کو بُعد ہوتاجاتاہے اور ملکوتیت سے قرب یہاں تک کہ وہ فرشتگانِ ملاء اعلیٰ کا رفیق بن جاتاہے اور مقربان بارگاہ الٰہی کے زمرہ میں داخل ہوجاتاہے۔ قربِ الٰہی سے یہی مراد ہے اور یہ بات اسماء وصفاتِ الٰہی سے اپنے کو متصف کرنے سےحاصل ہوتی ہے۔

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے