Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

اعتبار

تصوف میں اس لفظ کا استعمال عموماً حقیقت کے مقابلہ میں ہوتاہے۔ ہر وہ چیز جو حقیقی نہیں اعتباری ہے۔ ہر وہ چیز جو ظنّی وہمی اور فرضی ہے اعتباری ہے۔

ایک رسی کا ٹکڑا لو اور اس کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں رکھو اور دوسرے سرے میں ایک شعلہ یاروشن لٹو باندھو اور تیزی سے رسی کو گھماؤ تو بے شمار دائرے بنتے چلے جائیں گے۔یہ دائرے سب اعتباری ہیں۔ حقیقتاً ایک ہی نقطہ ہے جو تیزیٔ حرکت سے دائرے کی صورت میں نمودار ہوکر اعتبارات کا طلسم پیشِ نظر کرتاہے۔

صرف حق سبحانہ تعالیٰ ہی ذات حقیقی ہے اور اس کے ماسوائے جو کچھ ہے سب اعتباری ہے :

تو یقینی وجہاں جملہ گماں من بہ یقین

مدتے شد کہ یقیں رابگماں می بینم

ہرتنزل، ہر تعین، ہر تقید اعتباری ہے۔ ساری کائنات اعتبارات ہی کا مجموعہ ہے:

وجود اندر کمالِ خویش ساریست

تعینہا امورِ اعتباری است

امورِ اعتباری نیست موجود

عدد بسیار ویک چیز است معدود

جہاں رانیست ہستی جز مجازی

سراسر حالِ اولہو ست و بازی

کائنات پر نظر ڈالو تو بہت سی چیزیں تمہیں خود بھی نظر ی دھوکہ معلوم ہوں گی۔ آسمان میں جو بے شمار چھوٹے چھوٹے تارے نظر آتے ہیں تمہاری ہی دور بینیں اور تمہاری ہی عقل اور تمہاری علمی تحقیقات تمہیں یقین دلاتی ہیں کہ تمہاری آنکھیں انہیں غلط دیکتھی ہیں۔ یہ تارے چھوٹے نہیں بلکہ بہت بڑے بڑے ہیں جن کا طول وعرض ہزاروں لاکھوں میل کا ہے۔ ان میں شب کے وقت جو روشنی نظر آتی ہے اس کی بابت بھی تمہاری تحقیقات نے تمہیں بتادیاہے کہ یہ روشنی ان کی نہیں ہے بلکہ کہیں اور سے آتی ہے۔ پھر دن میں ستارے نظر نہیں آتے تو عوام سمجھتے ہیں کہ کہیں چلے جاتے ہیں لیکن جو علم وفہم میں عوام سے کسی قدر بڑھے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دن میں بھی یہ ہمارے سامنے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ رات میں مگر آفتاب کی روشنی ان پر حجاب ڈال دیتی ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ زمین ایک جگہ پر قائم ہے اور مثل تختۂ مسطح کے بچھی ہوئی ہے اور آفتاب روزانہ طلوع ہوتاہے اور اپنی مسافت طے کرتا ہے اور غروب ہوجاتاہے۔ مگر سائنس کا ہر ادنیٰ طالب علم اپنی پوری قوت سے کہتاہے اور کہے جاتاہے کہ عوام کا مشاہدہ بالکل غلط ہے کیونکہ زمین مثل نارنگی کے گول ہے اور ہمیشہ دوہری دوہری گردشوں میں رہتی ہے۔ زمین کی گردش سے آفتاب کی حرکت کا دھوکہ ہوتاہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارے علوم ابھی ناقص ہیں۔ تمہاری دوربینیں محودود ہیں۔ تمہارے قیاسات آئے دن غلط ثابت ہوتے ہیں اور تمہاری تحقیقات جملہ امور کی بابت برابر ترقی کی کرتی چلی جاتی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ و ہ ناقص ہے۔ ابھی تک کامل نہیں ہوئی اور ترقی کی بڑی گنجائش ابھی باقی ہے۔ اگر تمہارے علوم ذرا اور ترقی کرجائیں اور تمہاری عقل میں ایک جدید روشنی کا اضافہ ہوجائے اور اسی روشنیٔ جدید میں تمہاری مزید تحقیقات آیندہ چل کر تمہیں اس نتیجہ پر پہنچا دے کہ جن امور کو تم حقیقی سمجھے ہوئے ہو وہ سب ظنّی وہمی اور اعتباری ہیں اور جن باتوں پر تم نے اب تک اپنے علم اور تحقیقات کی بنیاد رکھی ہے ان کی اصلیت کچھ اور ہی ہے تو اس میں کون سے تعجب کی بات ہوگی۔ بس اتنا ہوگا کہ جن خوش نصیب، خوش قسمت اور برگزیدہ ہستیوں کو اس انکشاف ِحقیقت کا شرف تم سے صدیوں قبل حاصل ہوچکا ہوگا وہ تمہیں دیکھ کر یہ شعر پڑھ دیں گے:

آنچہ دانا کند، کند ناداں*لیک بعد از خرابیٔ بسیار

منجملہ مختلف امور کے مثال کے طورپر ایک اسی بات کو لے لو کہ کائنات میں جو کچھ اب تک ہوا ہے اور ہورہاہے اور ہونے والا ہے وہ باعتبار زمانہ کے بس تین ہی حصوں میں تقسیم ہوسکتاہے۔ ماضی، حال اور مستقبل، ماضی گیا اور وجودنہیں رکھتا۔ مستقبل ابھی آیا نہیں اور اس کا وجود اب تک نمودار ہی نہیں ہوا۔ رہا حال جس میں تم اپنے کو پاتے ہو اور جس میں تم مقید ہو اور جس پر تمہاری ہستی کا دار ومدار ہے۔ تم جب اور جہاں اور جس حالت میں ہوتے ہو اسی حالت کو اپنے اوپر مسلط پاتے ہو۔ ماضی ماضی نہ تھا بلکہ حال تھا،جس وقت کہ تمہیں اپنے آغوش میں لئے ہوئے تھا۔ اور مستقبل نہ ہوگا بلکہ حال کی صورت میں آئے گا اور تم سے مصافحہ کرےگا۔ یہی حال وہ نقدِ وقت ہے جس پر تمہارا قبضہ ہے اور جس کی بنیاد پر تمہیں یہ گمان پیدا ہوتاہے کہ تم بھی کوئی ہستی رکھتے ہو اور اپنے دورِ حیات کو پورا کررہے ہو لیکن ذرا اس حال کی بھی چھان بین کر لو کہ اس کی حقیقت کیاہے۔ حال ،ماضی کی نہایت اور مستقبل کی ہدایت ہے۔ دونوں کے درمیان حدّ فاصل اور دونوں میں مشترک ہے۔ جسے تم حال سمجھے ہوئے اس کے وسط میں ایک باریک سے باریک خط کھینچو تو ایک جانب ماضی اور دوسری جانب مستقبل ہوگاگویا دو مَوہومات کے اتصال اور انفصال کا نام حال ہے۔ یعنی حال ایک نکتۂ وہمی ہے جو ایک غیر متناہی خطِ مفروضہ پر فرض کرلیاگیاہے۔ ا س نکتۂ وہمی نے تجدیدِ تعینات سے نہرِ رواں جاری کررکھی ہے جو سرعتِ تجدّد سے مثل قطرہائے باراں کے ایک نہر جاری متوہّم ہوتی ہے۔

کائنات کے دیگر پہلوؤں پر بھی اسی طرح نظر ڈالی جائے تو مفروضات وموہومات وظنیات واعتبارات اور نظری مغالطوں کا ایساہی سلسلہ ہر طرف پھیلا ہوا نظر آئے گا اور ثابت ہوجائے گا کہ یہ ساری کائنات ایک عظیم الشان خواب ہے نمود بے بود:

ہستیم جملہ خیالست کا مثالِ سراب

بالیقیں من نیم ووہم وگمانم باقیست

(نیاز)

کائنات کی اعتباری ہونے کی حقیقت سے کسی قدر آگاہ ہونے کے لئے مندرجہ ذیل تمثیل کسی حد تک مفید ثابت ہوگی۔

تمثیل

اگر تم حسن تخیل رکھتے ہو اور اس تخیل میں کسی قدر قوت اور قیام اور استقلال بھی ہے تو تم اپنی آنکھیں بند کرکے ایک نئی دنیا اپنے تصور میں ایجاد کرو یا چھوٹے پیمانے پر ایک شہر یا ایک باغ ومحل اور اس کے مکیں یا ایک مجلس ہی کا نقشہ اپنے تخیل کی آنکھ سے سامنے کھینچو اور اسے کچھ دیر قائم رکھو تو تمہیں اپنی نگاہِ تخیل کے سامنے اپنی پیدا کی ہوئی دنیا جیتی جاگتی، چلتی پھرتی، ہنستی بولتی، روتی چیختی، چلاتی، کھاتی پیتی دکھائی دے گی۔ تمہاری یہ مخلوقِ مجازی تمہاری ہی قوت سے قائم ہے۔ تمہارے ہی تخیل کی موجیں کسی کو ہست اور کسی کو نیست کرتی ہیں۔ کسی کو ہنساتی، کسی کو رلاتی ہیں۔ کسی کو عزت دیتی ہیں کسی کو ذلت۔ تمہارے ہی خیال نے اس دنیا کو وجود بخشا اور تمہارا ہی خیال اسے عدم کی جانب لے جاتاہے۔ تمہاراہی خیال اسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں بلکہ تمہاری اس دنیا میں جسے تم نے ہی پیدا کیا ہے تمہارے خیال کے سوائے کسی اور چیز کا وجود ہی نہیں۔ تمہارے ہی خیال نے کہیں کوئی صورت اختیار کی ۔کہیں کوئی بادل کی صورت میں گرجا، کہیں بجلی کی صورت میں چمکا، کہیں مینہ کی صورت میں برسا، کہیں آگ کی صورت میں بھڑکا، کہیں گل بنا کہیں بُلبل، کہیں ناز کہیں نیاز، کہیں حسن کہیں عشق، کہیں طالب کہیں مطلوب، کہیں ناظرکہیں منظور۔ تم نے جو چاہا کیا۔ کوئی تمہیں روکنے والا نہیں ۔ تم نے جو ارادہ کیا فوراً پورا ہوا۔ کوئی رُکاوٹ سدّ راہ نہ ہوئی۔ کسی آلہ یا ذریعہ یا معاون ومدد گار کے تم محتاج نہ ہوئے۔ اس کام میں تمہارا کوئی شریک نہیں۔ اپنی اس دنیا کی تخلیق میں تمہیں کوئی شئے اپنے باہر سے نہیں لانی پڑی۔ اس کی ہر چیز میں تم نے اپنے کو ڈھونڈھا اور اپنے ہی کو پایا۔ اپنے حسنِ تخیل کی سیر کی اور اپنی ہی مستیوں میں سرشار رہے۔ بایں ہمہ تم میں کوئی تغیر نہ واقع ہوا۔ نہ اس دنیا کی بارش نے تمہیں بھگویا۔ نہ اس کی آگ نے تمہیں جلایا۔ نہ اس کی نجاستوں نے تمہیں نجس کیا۔ نہ اس انقلاب نے تمہیں منقلب کیا۔ نہ اس کی ہستی سے تم ہست ہوئے۔ نہ اس کی نیستی سے تم نیست ہوئے۔ نہ اس کے وجود میں آنے سے تم میں کوئی چیز کم ہوئی۔ نہ اس کے معدوم ہونے کے بعد تم نے اپنے میں کوئی زیادتی پائی تم جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ تم اس سے بالکل مستغنی ہو۔ گو وہ تم سے کسی طرح مستغنیٰ نہیں ۔ تم اس دنیا سے نہ متحد ہو نہ منفصل۔ نہ تم اس میں حلول کئے ہوئے نہ وہ تم میں حلول کئے ہوئے ہے۔ اس کا کوئی وجود ہی نہیں جو حلول و اتحاد اور اتصال و انفصال کی گفتگو تک درمیان میں آسکے۔ اس کا وجود محض اعتباری ہے اور تم سے قائم ہے۔ تم نے جب تک چاہا اسے قائم رکھا اور جب چاہا سارا کھیل بگاڑ دیا۔ مگر باوجود اس کےتم سے زیادہ کوئی چیز اس کے قریب نہیں۔ تم جس قدر اپنے قریب ہو اسی قدر اپنے تخیل سے قریب ہو اور جس قدر اپنے تخیل سے قریب ہو اسی قدر اپنے تخیل کی لہروں سے قریب ہو۔

مَن عَرَفَ نَفسَہٗ فَقَد عَرَفَ رَبَّہ

اب اپنے خود ساختہ گھروندے سے نکلواور خدا کی پیدا کی ہوئی عظیم الشان کائنات پر نظر ڈالو۔ع

چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک

کجا تم، کجا وہ ذاتِ مقدس۔ تم محدود وہ لامحدود۔ تم ہر بات کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ ہر بات کی قدرت رکھتاہے۔ تم بعض باتیں چاہتے ہو مگر نہیں کرسکتے۔ وہ جو چاہتاہے کرتاہے۔ اس کا چاہنا ہی امرِ کن ہے اور اس کا امر کرنا ہی کام کا ہونا جانا ہے۔ تم نے ایک محدود اور چھوٹی سی دنیا بنائی اور تھک گئے۔ اس نے ایک عجیب و غریب اور عظیم الشان دنیا بناکر کھڑی کردی اور نہ تھکا نہ آیندہ تھکے گا۔ تم شاید اپنی دنیا کے لئے بہت سے نمونے باہر سے لائے۔ وہ کوئی نمونہ اور کوئی چیز باہر سے نہیں لایا۔ تمہاری پیدا کردہ دنیا کا وجود صرف تمہیں تک محدود رہا اور تم میں اتنی قدرت بھی نہ ہوئی کہ تم اس کے باشندوں کو احساسِ حیات بخشو کہ وہ بھی اپنے کو جیتا جاگتا ،چلتاپھر تا اور ہنستا بولتا محسوس کرسکیں۔ اس نے یہ سب کچھ بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کردکھایا۔ جو دنیا تم نے بنائی اس سےتمہارے حسن تخیل اور تمہاری وسعتِ نظری، حسن ترتیب وسلیقہ اور انتظامی قابلیت پر روشنی پڑتی ہے۔ جو دنیا اس نے ایجاد کی اس سے اس کی وسعتِ قدرت اور اس کے جمال وجلال اور اس کے کمالاتِ لامتناہی کا پتہ چلتاہے۔ گویا تمہاری دنیا ایک آئینہ تھی جس میں تمہارے کمالات رونماتھے اور اس کی دنیا ایک آئینہ ہے جس میں اس کے کمالاتِ لامتناہی جھلک رہے ہیں:

دریں دریا کہ من ہستم نہ من ہستم نہ دریا ہم

نہ داند ہیچ کس این سّر مگر آں کو چنیں باشد

دوسرااستعمال

لفظ اعتبار کا ایک اور بھی استعمال ہے جو تصوف کی کتابوں میں پایا جاتاہے۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ عارف کسی وقت کوئی آیتِ قرآنی یا حدیثِ نبوی سنتاہے تو اس کا ذہن کسی معرفت کی جانب منتقل ہوتاہے اگرچہ بظاہر عبارتِ نص اور اشاراتِ نص اور ایمائے نص سے اس معرفت کی جانب دلالت وضعی نہ پائی جاتی ہو اس انتقالِ ذہنی کو اعتبار کہتے ہیں۔

مثلاًکوئی شخص لیلیٰ مجنوں کا قصہ پڑھ رہاہے اور ایک عاشق اس قصہ کو سنتے ہی بیتاب ہوگیا یا اس پر گریہ طاری ہوگیایا اس میں مستی پیدا ہوگئی۔وہ خود مجنوں نہیں۔ یہ لیلیٰ پر عاشق ہے۔ نہ اس کے دردِ عشق کا قصہ پڑھا جارہاہے۔ نہ اس قصہ سے کوئی استدلال یا کچھ استنباط کیاگیاہے بلکہ اس قصہ سے اُس عاشق کو اپنے واقعات یاد آگئے اور ان واقعات اور حالات میں اسے اپنے واقعات اور حالات سے تطبیق یا کسی قدر مناسبت نظر آئی اور دفعۃ اس کی حالت میں تغیر واقع ہوگیا۔ گویا یہ تغیر اس عاشق کی اندرونی کیفیات کے مشتعل ہونے سے وقوع میں آیا اور اس کے مقام سے پیدا ہوا اور لوگوں نے بھی اس قصہ کو سنا مگر ان کےحالات متغیر نہ ہوئے۔

یا مثلاً کسی نے یہ حدیث نبوی بیان کیاکہ ’’جس گھر کتّا اور تصویر ہو اس میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا‘‘۔ اور یہ سن کر ایک صوفی جو تزکیہ نفس اور تصفیۂ باطن میں منہمک ہے بول اٹھے کہ سچ ہے۔ جس خانۂ قلب میں حرصِ دنیا کا کتّا اور ماسویٰ کی تصویر ہو اس میں قدس کا فرشتہ نہیں آتا تو اس قسم کا انتقالِ ذہنی بالکل جائز ہوگا۔

یامثلاً کسی نےقرآن کی یہ آیت پڑھی۔

اِنَّ المُلُوکَ اِذَا دَخَلُوا قَریَۃً اَفسَدُوھَا وَجَعَلُوا اَعِزَّۃَ اَھلِہَا اَذِلَّۃً (النمل۔ ع۳)

یعنی تحقیق بادشاہ جب داخل ہوتے ہیں کسی شہر میں تو خراب کرتے ہیں اس کو اور کردیتے اس کےعزت داروں کو ذلیل۔

اور اس سے ایک سالک کو یہ تنبیہ حاصل ہوئی کہ جب سلطانِ ذکر شہرِ بدن میں داخل ہوتاہے تو بدن کو تاخت وتاراج سے زیر وزبر کردیتاہے اور نفس کو جوکہ باعزت تھا ذلیل کردیتاہے یا کسی نے ان کیفیات کو جو سلطان الذکر سے روح و بدن میں پیدا ہوتی ہیں سورۃ اِذَا زُلزِلَت الاَرضُ زِلزَالَھَا پر منطبق کردیا یا سلیمان ؑ اور بلقیس کے قصہ میں کسی نے ہدہد کو قوت متفکرہ اور شہر سبا کو مدینۂ جسد، اور سلیمانؑ کو دل اور بلقیس کو نفس۔ اور اَلَّذی عِندَہٗ عِلم مِنَ الکِتَاب کو عقلِ فعال، اور عرشِ بلقیس کو طبیعت مدینہ سے تشبیہ دی تو اس قسم کے جملہ انتقالات ذہنی اعتبار کی قبیل سےہیں۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒ اپنی کتاب الطاف القدس میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔

آگاہ رہو کہ آنحضرتؐ نے صنعتِ اعتبار کو تدبرِ قرآن کے وقت نگاہ رکھاہے اور اس کے موافق ایک دریا چھوڑ دیا ہے اور یہ علم اس کتاب (یعنی الطافِ قدس) کے لائق نہیں۔ غرضیکہ اعتبار ایک فن ہے بہت بڑا اور عمدہ بہت وسیع میدان امید کا کہ تفسیرِ عرائس اور حقائقِ سلمی اور اکثر کلامِ شیخ اکبر اور شیخ الشیوخ سہروردی سب اسی مقولۂ اعتبار سے ہیں۔‘‘

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے