Sufinama

حقیقت_محمدی

حقیقتِ انسانی کی اصل حقیقتِ محمدی ہے۔ حق تعالیٰ نے سب سے پہلا تنزل حقیقتِ محمدی میں فرمایا۔ محمدؐنے فرمایا کہ اَوَّل ُمَا خَلَقَ اللہُ نُورِی یعنی پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے۔ نیز فرمایا کہ کُنتُ نَبیّاًٍٍ وَ آدَمُ بَینَ المَآء ِوَلطِّینِ۔ یعنی میں نبی تھا جبکہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔ آپؐ کل موجودات سے اسبق اور کل مخلوقات سے اکمل ہیں۔ یعنی بلحاظ تخلیق کے آپؐ اول اور بلحاظ ظہور کے آپؐ آخر ہیں۔ بلحاظ حقیقت آپ خلق اول، تعین اول،برزخِ کبریٰ، اور رابطہ بین الظہور والبطون ہیں۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کا وہ نور ہیں جو سب سے پہلے چمکا اور جس سے تمام کائنات کی تخلیق ہوئی۔ آپؐ اصل ہیں جملہ کائنات کی۔ آپؐ خلاصۃ الموجودات ہیں۔ آپؐ جانِ عالم ہیں۔ آپؐ اجمال ہیں ان اسماء وصفات کا جن کا ظہور تفصیلی کائنات میں ہے۔آپؐ ہی عقلِ اول ہیں۔ آپؐ ہی نورِ نبوت ہیں۔ آپؐ ہی حقیقت ہیں آدم ؑ کی۔ آپؐ ہی اصل ہیں جملہ انبیاء کی ۔جس طرح آدم ؑ پر تخلیقِ کائنات ختم ہوئی آپؐ پر تکمیلِ انسانی ختم ہوئی۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کا وہ نور ہیں جو اسماء وصفات کے ظہور سے پہلے درخشاں ہوا۔ زماں اور مکاں کے پیدا ہونے سے پہلے چمکا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نور کو عقل اول کے اندر اس طرح جگہ دی جیسے انجینئر کے دل میں مکان کی تعمیر کے لئے اینٹ ،پتھر، چونہ، لکڑی وغیرہ سامان جو فراہم کیا جاتاہے وہ سب اسی نقشہ کے تابع ہوتاہے جو انجینئر کے دل میں محفوظ ہے۔ اسی نقشہ پر مکان کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی نقشہ سے مکان کی تکمیل ہوتی ہے۔ غرضیکہ مکان کی ابتدا اور انتہااور جملہ درمیانی مراتب اسی نقشہ کے تابع ہوتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے عالم روحانی کا ابداع کیا اور عالم جسمانی کی تخلیق فرمائی تو نورِ نبوت کو عقل اول کی ذات سے اس طرح نکالا جس طرح مکان کا نقشہ انجینئر کے ضمیر سے نکلتاہے۔چنانچہ اسی نور سے چاند سورج روشن ہوئے اور اسی نورسے عرش و کرسی اور لوح و قلم کو قیام ملا اور اسی نور سے آسمانوں کو ستاروں کے ساتھ رونق دی گئی اور اسی نور سے زمینیں بچھائی گئیں اورانہیں آباد کیاگیا۔ یہی نور ربانی آدم کے قلب میں امانت بن کر آیا اور منتقل ہوتے ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا ہوا اور صورتِ محمدی اس نے اختیار کی۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلہ بِقَدرِ حُسنِہ وَجَمَالِہ

جس طرح اللہ تعالیٰ نے اِس نور سے عالمِ روحانی کا ابداع فرمایا اسی طرح اس نور سے عالمِ جسمانی کو مجسم فرمایا۔

گویا یہ نور ابتدا میں انجینئر کے دل کے اندر کانقشہ تھا جو آخر میں مثل اس آخری اینٹ کے ظاہر ہوا جس پر مکان کی تعمیر ختم ہوئی۔ جب یہ نور ہیکلِ جسمانی میں ظاہر ہوا اور مکان کی آخری اینٹ کی طرح دوسری اینٹ میں مل جل کر اللہ تعالیٰ کے قول

قُل اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِّثلُکُم (الکھف۔ ع ۱۲)

کہہ دو کہ میں مثل تمہارے ایک بشر ہوں۔

کے مطابق دوسری اینٹوں کی صورت میں نمایاں ہوا تو گویا ایک آفتاب تھا جس پر ابر آگیا اور بوجہ اُس ابر کے دیکھنے والوں کے لئے اُس کا دیکھنا آسان ہوگیا۔ جملہ اسماء وصفات ایک جامع اسم یعنی اسم اللہ میں مجتمع ہوکر صورت بشری میں ظاہر ہوتے ہیں اور جو دیکھنے والے ہیں انہیں موقع ملتاہے کہ اسم اللہ کی صورت ظاہری کو وہ دیکھیں اور مراد کو پہنچیں، مگر اس دیکھنے کا حق وہی ادا کرتے ہیں جن کی نظر دونوں جہتوں پر ہو۔ آپ کی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت حقیقت سے متعلق ہے اور دوسری جہت بشریت سے ۔ جس نے ایک جہت پر نظر کی اور دوسری جہت کو نہ پہچانا اس نے آپ کو نہ دیکھا اور وہ حق تعالیٰ کی اس تنبیہ میں آگیا کہ

وَتَرَاھُم یَنظُرُونَ اِلَیکَ وَھُم لا یُبصِرُون۔(الاعراف۔ع۲۴)

اور تم دیکھتے ہو ان کو کہ تمہاری جانب نظر کرتے ہیں مگر کچھ نہیں دیکھتے۔

خوا للہ تعالیٰ آپ کی جہت اولیٰ کو مدِ نظر رکھ کر فرماتاہے کہ

لَعمرُکَ (الحجر۔ ع ۵)

قسم ہے تیری زندگی کی۔

اور فرماتاہے کہ

وَاِنَّک َلَتَھدِی اِلیٰ صِراطٍ مُّستَقِیم۔ (الشوریٰ۔ ع ۵)

اور بے شک آپ سیدھی راہ کی جانب ہدایت کرتے ہیں۔

اور فرماتاہے ہیں:۔

مَا کَانَ مُحُمَّد اَبَا اَحَدٍ مِن رِجَالِکُم۔ (الاحزاب۔ ع ۵)

محمد تم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔

ونیز آپ خود اپنی شان میں فرماتے ہیں:۔

اِنِّی لَستُ کَاَحِد کُم اَبِیتُ عِندَرَبِّی یُطعِمُنِی وَیُسقِینِی (البخاری )

میں تم سے کسی کی طرح نہیں ہوں بلکہ اپنے رب کے پاس رہتاہوں وہ مجھے کھلاتاہے اور پلاتاہے۔

اور فرماتے ہیں:۔

لِی مَعَ اللہِ وَقت لا یَسَعُنِی فِیہ مَلَکُ مُّقَرَّبٗ وَلَا نَبِّیٗ مُرسَل۔

مجھ کو حق تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت ہوتاہے جس میں ملک مقرب اور نبی مرسل نہیں سماتے۔

اور آپ کی جہت ثانی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

قُل اِنَّمَا اَنَا بَشَر مَثلُکُم (الکھف۔ ع ۱۲)

کہہ دو کہ میں مثل تمہارے ایک بشر ہوں۔

اور فرماتاہے:۔

اِنَّکَ مَیِّت وَ اِنَّھُم مَیّتُونَ۔ (الزمر۔ ع ۳)

بے شک تم بھی مرنے والے ہو اور یہ بھی مرنے والے ہیں۔

اور فرماتاہے:۔

لَا تَھدِی مَن اَحبَبتَ (القصص۔ ع ۳)

تم ہدایت نہیں کرسکتے جسے چاہو۔

آپ کا دل تنگ ہونا اور شکستہ خاطر ہونا صفاتِ بشری سے تھا نہ کہ آپ کی جہت اصلی سے۔ آپ کا یہ قول کہ اَنتُم اَعلَمُ باُمورِدُنیَا کُم (تم اپنی دنیا کے امور کو زیادہ جانتے ہو)بھی بشریت کی جہت سے تھا۔ عجز و مسکینی اور نقائص امکانی کے کل لوازمات آپ میں بشریت کی جہت سے تھے جو آپ کو عالم سفلی میں نزول فرمانے اور عناصر کی قید میں مقید ہونے سے حاصل ہوئے تھے تاکہ آپ اپنے ظاہر سے عالم ظاہر کے خواص پر محیط ہوں اور اپنے باطن سے عالم باطن کے خصائص پر حاوی ہوں ۔آپ مجمع البحرین ہیں اور آپ کی ذات مُظہر العالمین ہے۔ آپ کا اس عالم میں نزول فرمانا بھی آپ کا کمال ہے اور اپنے اصلی مقام پر لیلۃا لمعراج میں عروج فرمانا بھی آپ کا کمال ہے

شاہدِ ما بجزاز خال وخط و غبغب خویش

خال وخط د گرو غبغبِ دیگر دارد

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے