القاء ،الہام، وحی
ہر وہ چیز جو بطریق استدلال حاصل نہ کی گئی ہو بلکہ قلبِ سالک پر حق تعالیٰ کی جانب سے یقینِ کامل کے ساتھ وارد ہوئی ہو القاء ہے یا الہام ہے یا وحی ہے۔
ابتداءًٍٍ سالک کے قلب پر خطرتِ رحمانی وارد ہوتے ہیں۔ انتہا میں جاکر حق تعالیٰ سے مکالمت کا شرف حاصل ہوتاہے۔ ابتدائی حالت کو القا اور انتہائی حالت کو الہام اور وحی کہتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو الہام ہوتاہے۔ انبیاء ؑ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ الہام حق تعالیٰ کی جانب سے بندہ پر بلا کسی فرشتہ کی وساطت کے اس جہت سے فائز ہوتاہے جو حق تعالیٰ کو ہر موجودات کے ساتھ ہے۔ وَلِکُلُ وِجھَۃ ھُوَ مُوَلِّیھَا (اور واسطے ہر کسی کے ایک جہت ہے کہ وہ منہ پھیرتاہے اس طرف )سے اسی جہت کی جانب اشارہ فرمایاگیاہے۔ وحی فرشتہ کے واسطہ سے ہوتی ہے۔ اسی بنا پر حدیثِ قدسی کو وحی و قرآن نہیں کہتے۔ وحی کشفِ شہودی و معنوی دونوں ہے۔ الہام صرف کشف معنوی ہے۔ وحی مخصوص بہ نبوت ہے اور ظاہر سے متعلق ہے اور تبلیغ کے ساتھ مشروط ہے۔ الہام ولایت سے مخصوص ہے اور تبلیغ کے ساتھ مشروط نہیں۔
یہ اجمال کسی قدر تفصیل کا محتاج ہے جو حسبِ ذیل ہے:۔
حق تعالیٰ کا تعلق کائنات کے ساتھ اس نوع کا نہیں جس نوع کا تعلق کہ ایک گھڑی ساز یا گھڑی رکھنے والے کا گھڑی کے ساتھ ہوتاہے۔ گھڑی ساز گھڑی کے کل پرزوں کو بناتاہے، درست کرتاہے اور انہیں ترتیب دے کر گھڑی کو چلا دیتاہے اور اس کے بعد گھڑی سے بے تعلق ہوجاتاہے۔ یاگھڑی رکھنے والا رات دن میں ایک بار گھڑی کو چابی دیتاہے اور چوبیس گھنٹہ تک کے لئے فراغت پالیتاہے۔ گھڑی خودبخود چلتی رہتی ہے اور دوسرے دن تک اپنی رفتار قائم رکھنے کے لئے اپنے مالک کے چابی دینے یا گھڑی ساز کی نگرانی کی محتاج نہیں ہوتی۔ حق تعالیٰ کو کائنات کے ساتھ اس قسم کا تعلق نہیں بلکہ کائنات اپنی ابداع اور اپنی تخلیق کےبعد بھی اپنے قیام کے لئے ہر لمحہ اور ہر ساعت حق تعالیٰ کی توجہ کی محتاج رہتی ہے۔ اگر ایک لمحہ کےلئے بھی نظرِحق اس کی جانب سے ہٹ جاوے تو ساری کائنات نیست و نابود ہوجاوے۔ حق تعالیٰ ہر وقت کائنات کی جانب متوجہ رہتاہے۔ اس متوجہ رہنے کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنی ذات و صفات سے کائنات پر متوجہ رہتاہے۔ صفات میں ایک بہت بڑی صفت صفتِ کلام بھی ہے جس سے حق تعالیٰ اپنی مخلوق کی جانب ہر وقت متوجہ رہتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت کسی وقت بھی معطل نہیں رہتی۔ اور وہ اپنی مخلوق کے ہر فرد سے اس فرد کی استعداد کے مطابق ہم کلام ہوتارہتاہے۔ کسی کو براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا فرماتاہے۔ جیسے وَ کَلَّمَ اللہُ مُوسیٰ تَکلِیماً ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ سے خوب گفتگو کی۔ کسی سےوحی کے ذریعے کلام فرماتاہے، کسی سے من وّرآءِ حجاب یعنی پردہ کےپیچھے سے کلام فرماتاہے۔ کسی سے ہم کلامی کی یہ شان اظہار فرماتاہے کہ فرشتہ کے ذریعہ اس کےدل میں جو چاہتاہے القاء فرماتاہے۔ جیسے موسیٰؑ کی والدہ اور عیسیؑ کی والدہ کے دل میں القاء فرمایاتھا۔ کسی کے دل میں براہ راست یعنی بلا وساطتِ فرشتہ جو چاہتاہے القا فرماتاہے۔ جیسے شہد کی مکھی کو القاء ہوتاہے اور القاء کو بھی وحی سے تعبیر فرمایاجاتاہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتاہے۔ وَ اَوحیٰ رَبُّکَ اِلٰی النَّحل (اور وحی فرمائی تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف)۔ کسی سے بذریعہ خواب اور رویائے صالحہ میں باتیں ہوتی ہیں۔ غرضیکہ ہم کلامی کی جتنی شانیں اور ذرائع ہیں خواہ وہ القاء کے نام سے موسوم ہوں ،خواہ الہام کے نام سے ،خواہ کسی اور نام سے وہ سب حقیقتاًوحی ہی کی مختلف اقسام یا مختلف فروع ہیں۔ صرف قوت اور کمزوری یا کشف و حجاب کےاختلافات سے مختلف ناموں سے وہ مختلف فروع موسوم ہیں۔ سب سے قوی اورسب سے زیادہ واضح طریقہ ہم کلامی کا وحی کے نام سے موسوم کیا جاتاہے تو اس وحی ِاصطلاحی کی صحیح تعریف حسبِ ذیل ہوگی۔
وحی کلامِ الٰہی ہے جو عالمِ غیب سے عالمِ شہادت کی جانب بذریعہ ایک مقرب فرشتے کے جنہیں جبرئیلؑ کہتے ہیں رسولوں کے پاس پہنچایا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:۔
وَمَا کَانَ لِبَشرٍ اَن یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحیًا اِو مِن وَّرآءِ حِجَابً اَو یُرسِلَ رَسُولاً فَیُوحِی بِاِذنِہ مَایَشآءُ۔ اِنَّہ عَلِیّ حَکِیم۔ وَکَذالِکَ اَوحَینَآ اِلَیکَ رُوحاً مَن اَمرِنَا مَاکُنتَ تَدرِی مَالکِتٰب ولَاالاِیمَان وَلٰکِن جَعَلنٰہ نُوراً نَّھدِی بِہ مَن نَشَآءُ مِن عِبَادِنَاوَاِنَّکَ لَتَھدِیٓ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّستَقِیم۔ (الشوریٰ۔ ع۵)
’’اور نہیں طاقت کسی بشر میں یہ کہ کلام کرے (بالمشافہ)اس سے اللہ مگر بذریعہ وحی کے یا پردہ کے پیچھے سے یا کسی (فرشتہ)کو پیغامبر بنا کر بھیجے پس وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہتاہے جی میں ڈال دیوے تحقیق وہ بلند مرتبہ حکمت والا ہے اور اسی طرح وحی کی ہم نے طرف آپ کے(اےمحمدؐ)روح کو ساتھ حکم اپنے کے۔ نہ جانتے تھے آپ کہ کیا ہے کتاب اور نہ ایمان و لیکن کیا ہے ہم نے اس کو نور۔ ہدایت کرتے ہیں ہم ساتھ اس کے جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے اور تحقیق آپ البتہ ہدایت کرتے ہیں طرف سیدھی راہ کے۔‘‘
بلحاظ ضعف و قوت اور بہ لحاظ زیادہ واضح اور کم ہونے کے وحی کے تین مراتب ہیں:۔
پہلا مرتبہ سب سے زیادہ قومی اور اکمل وہ ہے جس کے ذریعہ علوم غیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کی عقل پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور رسول کے نفس میں ان علوم کو اس طرح منقش کیا جاتاہے کہ رسول انہیں اپنے دل میں یاد رکھ سکے اور دوسروں کے سامنے بیان بھی کرسکے۔
اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بلا واسطہ کلام کرے جیسا کہ موسیٰ کے متعلق حق تعالیٰ فرماتاہے:۔ وَکَلَّمَ اللہُ مُوسٰی تَکلِیماً (اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے خوب گفتگو کی۔)اور ہمارے حضور کے متعلق فرماتاہے:۔ فَاَوحیٰ اِلیٰ عَبدِہ مآاَوحیٰ ۔ (اپنے بندہ کی طرف جو کچھ وحی کرنی تھی وہ کردی )اسے وحی صریح کہتے ہیں۔
وحی کے پہلے مرتبہ کی دوسری قسم یہ ہے کہ جبرئیل کلماتِ مقررہ اور عباراتِ معینہ کے ساتھ نازل ہوں اور حروف و صوت رسول کے کانوں تک پہنچادیں اور معنی ان کے قلب میں القاء کریں۔ یہ دونوں صورتیں ابنیاء کے لئے مخصوص ہیں۔
دوسر امرتبہ جو پہلے مرتبہ کے مقابلہ میں کمزور اور کم تر درجہ کا ہے یہ ہے کہ کلام الٰہی اس نفس تک پہنچ جائے جو اس کلام کے قبول کرنے کی صلاحیت و استعداد رکھتاہو۔ جیسے کہ موسیٰ کی والدہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈال دی کہ وہ موسیٰ کو دودھ پلا کر صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیں۔ اِذَا اَوحَینَآ اِلیٰٓ اُمِّک مَا یُوحیٰ۔ اَنِ اقذِفیہ فِی التَّابُوتِ فَاقذِفِیہ فِی الیَمِّ (جس وقت کہ وحی ڈالی ہم نے طرف ماں تیری کے وہ چیز کہ وحی کی جاتی ہے اب یہ کہ ڈال دے اس کو بیچ صندوق کے پس ڈال دے اس کو بیچ دریا کے۔)اس وحیِ خفی اور تعلیمِ سّری کے القاء نے ان کی والدہ کے نفس کو خواب جہالت سے بیدار کردیا اور ان کا دل اپنے بیٹے کے متعلق تردد اور شمنوں کے خوف سے مامون ہوگیا۔ اسی نوع کی وحی عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم کو بھی ہوئی تھی جب کہ درخت کے نیچے سے ان کو آواز آئی کہ غمگین مت ہو۔ فَنَادٰھَا مَن تَحتِھآ اَلَاّ تَحزَنِی قَد جَعَلَ رَبُّکِ تَحتَکِ سَرِیاّ۔
(پس پکارا اس کو یعنی مریم کو نیچے اس درخت کے سے کہ مت غم کھا۔ تحقیق کردیا ہے پروردگار تیرے نے نیچے تیرے چشمہ)۔ یقینی امر ہے کہ موسیٰ کی والدہ اور عیسی علیہ السلام کی والدہ پیغمبر نہ تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وحی کا یہ مرتبہ جسے القا اور الہام کہتے ہیں ان لوگوں کے لئے بھی حق تعالیٰ نے رکھا ہے جو نبی یا رسول نہیں ۔خضر کو اسی ذریعہ سے علم لدنّی کی تعلیم ہوئی جن کی بابت حق تعالیٰ فرماتاہے کہ :۔ وَعَلَّمنَاہُ مَن لَدُنَّا عِلماً۔ (اور ہم نے ان کو اپنے خاص علم میں سے تعلیم کیا)۔رسول خداؐ نے فرمایا کہ اِنَّ للہَ فِی کُلِّ اُمَّۃٍ عِبَاداً مُحَدِّثُونَ وَفِی اُمَّتِی مُحَدِّثُونَ وَاَ شَارَ اِلیٰ بَعضِ اَصحَابِہ۔ (یعنی بے شک ہر ایک امت کے اندر اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتاہے اور میری امت میں بھی ایسے بندے ہیں جن سے وہ ہم کلام ہوتاہے )اور آپ نے اپنے بعض اصحاب کی طرف اشارہ فرمایا۔ بعض روایات کی رو سے حضرت عمرؒ کی جانب اشارہ فرمایا۔
تیسرا مرتبہ وحی کا جو دوسرے مرتبہ سے بھی ضعیف تر ہے ،یہ ہے کہ حق تعالیٰ نفوس کو ان کاموں کی تعلیم فرماتاہے جو ان نفوس کے مقاصد سے متعلق ہیں۔ اور وہ نفوس اس وحی کے سبب ان صنائع و بدائع کا استخراج کرتے ہیں جو ان کی قوت اور استعداد کے اندر ہیں۔ جیسے مکڑی کا جالا بننا، ریشم کے کیڑے کا ریشم تیار کرنا، شہد کی مکھی کا چھتہ بنانا۔چنانچہ حق تعالیٰ فرماتاہے ۔وَاَوحیٰ رَبُّکَ اِلیٰ النَّحلِ اَن اتَّخِذِی مِنَ الجِبَالِ بُیُوتاً (وحی کی تیرے رب نے طرف شہد کی مکھی کے کہ پہاروں میں اپنا گھر بنا)۔مکھی پر کوئی فرشتہ نازل نہیں ہوا نہ اللہ تعالیٰ نے حروف وصوت سے اسے خطاب فرمایابلکہ اس میں ایک بات کی استعداد پیدا کر کے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ اپنی استعداد کو جنبش میں لائے اور اپنا کام کرے۔
نفوسِ ناطقہ جب ایک حد تک کمالاتِ معنوی حاصل کرلیتے ہیں ، طبیعت کی کدورتوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔خواہشات کی قیود سے آزاد اور بشریت کے مقتضیات سے بر تر ہو جاتے ہیں تو فطرتاً ان کی توجہ عالمِ سفلی سے ہٹ کر عالمِ علوی کی جانب مائل ہوتی ہے۔خصائل ملکو تی کا ان پر غلبہ ہوتاہے اور علوم آسمانی کی تحصیل کا شوق دامنگیر ہوتاہے۔ یہاں تک کہ ملائکہ کی ہم نشینی کا انہیں شرف حاصل ہوتاہے اور اور اس ہم نشینی سے وہ راحت پاتے ہیں۔ ان ہی ملائکہ کے واسطہ سے خوش قسمت نفوس کو کلامِ الٰہی سننے کی دولت نصیب ہوتی ہے اور صحبت ملائکہ کے اثرات سے متاثر ہوکر وحی کی مختلف شاخوں اور عالم قدس کے مختلف پتوں اور علومِ غیب کے مختلف پھلوں سے وہ شکم سیر ہوتے ہیں۔
علم کے حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ظاہری اور باطنی ۔ظاہری طریقہ تو وہ ہی معمولی طالب علمی کا طریقہ ہے جو بہت عام ہے۔ اور باطنی طریقہ مراقبہ اور تفکر کا ہے۔ مراقبہ اسے کہتے ہیں کہ دل کو دوسرے خیالات سے ہٹاکر ایک ہی خیال پر جما دیا جائے اور اسی خیال کے اندر فکر میں منہمک ہوجائے۔ اور تفّکر یہ ہے کہ نفس ان علوم کو جو کہ اپنے سے مخفی ہیں مدت اور حیلہ اور آلہ کے ساتھ تلاش کرے۔ ایک تیسری چیز اور ہے جسے حدس کہتے ہیں۔ تفکر اور حدس میں یہ فرق ہے کہ تفکر میں تو غور وخوض سے اور طبیعت پر زور ڈال کر کوئی بات معلوم کی جاتی ہے۔ اور حدس میں بغیر سوچے سمجھے اور بلا غور وخوض اور بغیر آلہ حیلہ کے دفعتاً ایک بات قلب میں القاء ہوجاتی ہے۔ صاحبِ حدس یک بیک غیب کی جانب متوجہ ہوجاتاہے اور یکبارگی علمِ مطلوبہ اس پر منکشف ہونے لگتاہے بغیر ا س کے کہ عرصہ گزرے اور بغیر اس کے کہ ریاضت میں مشغول ہو۔ حدس بمقابلہ فکر کے نفوس کاملہ سے اقرب ہے۔ حدس سے فراست پیداہوتی ہے۔ اور فکر سے کیاست۔ کیاست اس زیر کی ودانائی کو کہتے ہیں جس کا تعلق دماغ سے ہے۔ اور فراست اللہ کا ایک نور ہے جس سے مومن دیکھتا ہےاور فائدہ اٹھاتاہے۔ فرمایا رسول خداؐ نے کہ :۔
’’ڈرو تم مومن کی فراست سے کیوں کہ وہ دیکھتاہے اللہ کے نور سے‘‘۔
یہی فراست ہے جو حدس سے پیدا ہوتی ہے۔ حدس ہی الہام کا زینہ ہے اور نبوت زینہ ہے وحی کا۔
جب نفسِ انسانی حدس کی قوت سے عالمِ بالا کی جانب متوجہ ہوتاہے اورعلومِ غیبیہ کے انوار اس پر چمکنا شروع ہوتے ہیں تو ان علوم کا اظہار اس پر رمز کے حجاب اور اخفاء و ابہام کے پردوں کی آڑ میں ہوتاہے۔ پھر اگر نفس میں اتنی قوت نہیں کہ حالتِ بیداری میں اس ظہور کا متحمل ہوسکے تو یہ جلوے اسے خواب میں دکھلائے جاتے ہیں اور غیب کے اسرار عالمِ رویاء کی صورتوں اور شکلوں اور مثالوں میں متمثل کر کے اس پر منکشف کئے جاتے ہیں۔
عالمِ رویا کے ذریعہ انکشاف حاصل کرنے کا مرتبہ الہام سے بھی کمتر ہے۔ الہام کا مرتبہ فرشتہ کے نازل ہونے سے جسے وحی کہتے ہیں کمتر ہے۔ اور وحی کا مرتبہ صریح مکالمہ سے جسے وحیِ صریح کہتے ہیں کمترہے۔ اسرارِ غیب کے ظہور کی انتہائی شان صریح مکالمہ کی شکل میں اولو العزم رسولوں کے لئے مختص ہے۔ وحی فی المنام یعنی خواب میں وحی ہونا محض انبیاء کے لئے ہے۔ الہام کی دولت سے اولیاء اللہ نوازے جاتے ہیں۔ ان اولیاء اللہ کے نفوسِ طاہرہ جب اپنے عصری قالبوں کی قید سے رہائی پاکر آسمانِ مکاشفہ کی بلندیوں پر پرواز فرماتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے ان کے مقامِ معاد میں خطابِ صریح کے ساتھ کلام فرماتاہے جیسا کہ رسولِ خداؐ نے ارشاد فرمایا ہے:۔
مَامِن عَبدٍ اِلَّا وَسَیُکَلِّمُہ رَبَّہ لَیسَ بَینَ العَبدِ وَالرَّبِّ تَرجَمَان وَلاَ وَاسِطَۃ (متفق علیہ)
یعنی ہر ایک مومن بندہ سے خدا وند تعالیٰ کلام فرمادے گا اور اس وقت خدا اور بندے کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا نہ کوئی واسطہ۔
القا اور الہام میں کسب کو کسی قدر دخل ہے مگر وحی میں کسب کو مطلق دخل نہیں ۔ ریاضت اور مجاہدہ سے یہ دولت ہاتھ نہیں آتی۔ جس طرح نبوت محنت اور مجاہدہ سے حاصل نہیں ہوتی وحی بھی کوششِ انسانی سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ الہام کے ذریعہ صرف معانی کا انکشاف ہوتاہے۔ وحی کے ذریعہ معانی کا بھی انکشاف ہوتاہے اور کثائفِ تنزیلات کا بھی اور نزولِ روح القدس یعنی جبرئیل کا بھی۔ روح القدس اور جبرئیل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔جبرئیل میں لطافت کا جب غلبہ ہوتاہے تو روح القدس ہوجاتے ہیں اور جب ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں کہ مکشوف ہو سکیں تو وہ جبرئیل ہوجاتے ہیں۔ جب وحی نازل ہوتی ہے تو روح القدس یا روح الامین معانی کو رسول کےقلب میں منقش کرتے ہیں اور الفاظ و عبارت کو جبرئیل رسول کے کان میں القا ء کرتے ہیں۔ پھر مسموع اور معقول کان اور دل کی راہ سے ذاتِ رسول میں مجتمع ہوجاتے ہیں اور رسول کی زبان و توجہ ان دونوں چیزوں کے فیضان میں مصروف ہوجاتی ہیں۔
نَزَلَ بِہ الرُّوحُ الاَمِین*عَلیٰ قَلبِک لِتَکُونَ مِنَ المُنذِرِینَ* بِلِسَانٍ عَرِبِیٍّ مُبِینٍ* (الشعراء۔ ع۱۱)
روح الامین نے (یعنی جبرئیل نے اپنی شان لطافت سے)اس کو تمہارے قلب پر نازل کیا ہے تاکہ تم عذاب الٰہی سے ڈرانے والوں میں سے ہواور اس کو عربی زبان میں جوسب زبانوں میں روشن اور بیّن ہے نازل کیاہے۔
انبیاء وحی کی قوت سے ان چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں جن چیزوں کو اولیاء اللہ الہام کی قوت سے نہیں دیکھ سکتے۔
انبیاء کلماتِ وحی کو اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔ معانی کو دل میں سمجھتے ہیں اور فرشتوں کو آنکھوں سے دیکھتے ہیں حالانکہ الہام میں سوائے انکشافِ معنیٔ مجردۂ مخفیہ کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.